خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے 22 افراد جو مبینہ طور پر عمان کے سمندر میں سات ستمبر کو کشتی حادثے کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے ان میں سے ایک کو زندہ بچایا گیا ہے جو کراچی پہنچ چکے ہیں۔
تاہم لواحقین کے مطابق باقی مسافر ابھی تک لاپتہ ہیں اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تفصیلات ابھی شیئر نہیں کی گئی ہیں۔
ان مسافروں کا تعلق بنوں کے علاقے خوجڑی سے ہے اور علاقہ مکینوں کے مطابق یہ مسافر ماہی گیر ہیں جو وہاں مزدوری کی غرض سے جاتے ہیں۔
بنوں سے رکن صوبائی اسمبلی پختون یار خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کشتی حادثے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے صوبائی چیف سیکرٹری نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے گذشتہ روز بنوں جا کر متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 10 لاکھ روپے کا اعلان بھی کیا ہے۔
حادثہ کیسے پیش آیا؟
سمید اصغر کا تعلق بنوں کے اسی علاقے خوجڑی سے ہے جن کے خاندان کے افراد بھی اس کشتی حادثے میں لاپتہ ہوگئے ہیں۔
سمید کے مطابق مسافروں کو بچنے والے حمید اللہ نامی شخص نے گھر والوں سے رابطہ کیا جو ایک دن میں پاکستان پہنچ جائے گا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچ جانے والے حمید اللہ نے گھر والوں کو ایک پیغام میں بتایا ہے کہ وہ کشتی میں دیگر مسافروں کے ساتھ سوار تھے کہ کمپریسر پھٹنے کی آواز آئی اور کشتی میں آگ لگ گئی۔
پیغام میں حمید اللہ نے بتایا ہے آگ لگنے کے بعد ایک ایک کر کے مسافر سمندر میں چھلانگ لگا رہے تھے اور کشتی خالی ہوگئی۔
حمید اللہ کے مطابق، ’میں نے کئی گھنٹے سمندر میں گزارے اور بعد میں سمندر میں ایک دوسری کشتی میں موجود لوگوں نے مجھے جیکٹ پھینک کر بچایا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی کوشش کے باوجود کسی آزاد ذرائع سے کشتی حادثے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی، تاہم بچ جانے والے حمید اللہ کے ایک مبینہ آڈیو پیغام سے یہ معلومات سامنے آئی ہیں جو انہوں نے اپنے خاندان والوں کو بھیجا ہے۔
ماہی گیر کیسے جاتے ہیں؟
کشتی حادثے میں بچ جانے والے حمید اللہ کے چچازاد بھائی شیر انداز، جن کا بیٹا بھی کشتی حادثے میں لاپتہ ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے باپ دادا دہائیوں سے یہی ماہی گیری کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میرا 22 سالہ بیٹا شیراز ایک ماہ پہلے گیا تھا لیکن ابھی کچھ نہیں پتہ کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیر انداز نے بتایا کہ پہلے یہاں بنوں اور صوبے کے دیگر علاقوں سے ٹیمیں ایک لیڈر کی سربراہی میں کراچی سے ایران چلی جاتی ہیں اور وہاں سے گوادر میں ان کو ماہی گیری کا پاس دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’گوادر میں ماہی گیری سے وابستہ بڑی کمپنیاں ہیں اور ان کو ہائر کر کے ایک پاس جاری کیا جاتا ہے اور پھر عمان کے سمندر میں دو تین مہینے ماہی گیری کر کے گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔‘
شیر انداز کے مطابق ان کے دو چچازاد بھائی اس کشتی میں بھی سوار تھے۔
اس کشتی حادثے کے حوالے سے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے جبکہ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے وزارتِ خارجہ کو مؤقف کے لیے پیغام بھیجا ہے لیکن کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
شیر انداز نے بتایا کہ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے نمائندے گاؤں آ کر ہم سے تفصیلات لے گئے ہیں لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک ہم سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بچ جانے والے حمید اللہ کراچی پہنچ گئے ہیں اور وہاں پر اب پولیس کے پاس ہیں، اور انہی سے باقی لاپتہ افراد کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کریں گے۔
<p> آبنائے ہرمز کے پانیوں میں ایک کشتی 25 جون 2025 کو عمان کے شمالی جزیروں سے گزر رہی ہے (گائیسپ/اے ایف پی)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/SNuion6