کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں پچھلے 11 سال سے رہائش پذیر استاد عزیز 30 برس سے دمبورہ بجانے کے ساتھ ساتھ بناتے بھی آ رہے ہیں۔
دمبورہ ایک دو تار والا آلہ ہے جو گٹار کی شکل کا ہوتا ہے۔ اس کی گردن لمبی اور جسم ناشپاتی کی شکل میں توت کی لکڑی سے بنا ہوتا ہے۔
دمبورے کے تار عام طور پر نائلون یا جانوروں کی آنت سے بنے ہوتے ہیں اور انہیں ایک پلیکٹرم یا انگلیوں سے بھی بجایا جا سکتا ہے۔
دمبورہ ہزارہ لوگوں کا ثقافتی اور مشہور آلہ موسیقی ہے، ہزارہ برادری بنیادی طور پر افغانستان کے مرکزی اور مشرقی علاقوں کے ساتھ ساتھ ایران، پاکستان اور دوسرے پڑوسی ممالک کے حصوں میں بھی رہتی ہے۔
دمبورہ ہزارہ ثقافت اور شناخت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
استاد عزیز کہتے ہیں کہ ’بڑوں کی نسبت بچے اسے شوق سے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ وہ اسے سیکھنا بھی چاہتے ہیں۔‘
دمبورے کا نچلا حصہ توت کے درخت کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے اور اوپر والا حصہ آلو بخارے، شیشم اور یا پھر سیب کے درخت کے لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔
’سب سے پہلے ہم توت کے درخت کو چھوٹے حصوں میں تراش کر اچھی طرح سے ریگ مال کر کے اسے تین مہینے تک پانی میں رکھتے ہیں، پھر اس کے بعد مختلف لکڑی سے اس کا اوپر والا حصہ یا ہاتھ بنا کر جوڑتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دمبورہ عام طور پر ان گانوں کے ساتھ بجایا جاتا ہے جو ہزارگی زبان کے ادب اور لوک کہانیوں کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ یہ گانے عام طور پر ہزارگی لہجے میں گائے جاتے ہیں۔
دمبورے کی دو قسمیں ہیں جن میں ایک بڑی قسم ہوتی ہے جسے ترکستانی دمبورہ کہتے ہیں اور چھوٹی قسم کو عام طور پر افغانستان کے صوبے بدخشاں کا دمبورہ کہا جاتا ہے۔
دمبورہ صرف ہزارہ لوگوں میں ہی مقبول نہیں ہے بلکہ افغانستان اور مرکزی ایشیا کے دوسرے نسلی گروہوں میں بھی مقبول ہے جیسے تاجک، ازبک، ترکمن اور کرغیز۔
استاد عزیز کے مطابق ہر قوم کا اپنا الگ دمبورہ ہے۔ ’کوئی چار تار کا، کوئی پانچ کا، اور کوئی تین کا دمبورہ بناتا ہے مگر ہزارگی دمبورہ صرف دو تار کا ہوتا ہے، جس میں سر برابر کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے کیونکہ آپ کے پاس صرف یہی دو تار ہیں اور اسی کے ذریعے آپ نے سر ملانا ہوتا ہے۔‘
ترکی میں اسے ساز، ایران میں سیتار، کرغزستان میں کوموز اور قازقستان میں اسے دومبرا کہا جاتا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

from Independent Urdu https://ift.tt/xKSgRjp