چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ آج ساڑھے 11 بجے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرے گا۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے ججوں کے خط پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو پہلے تو خوش آئند قرار دیا لیکن بعدازاں اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ’سات نہیں بلکہ نو یا 12 ججوں کو کیس سننا چاہیے کیوں کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پہلی سماعت چاہے سات جج کریں لیکن جب کیس میرٹ کی طرف جائے تو فل کورٹ کو اسے سننا چاہیے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر کے بیان کو ’سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو سیاست کی نذر کرنے کی مذموم کوشش‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’بیرسٹر گوہر خود وکیل ہیں، انہیں علم ہونا چاہیے کہ 184 (3) کے تحت بینچ کی تشکیل کی گئی ہے۔
’فل کورٹ نے ہی اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں تحقیقات کا کہا گیا تھا۔ اب یہ چیف جسٹس اور سینیئر ججوں کی کمیٹی کی صوابدید ہے کہ وہ کس معاملے پر کون سا بینچ تشکیل دیں۔‘
اپیل کے حق کی وجہ سے ابھی فل کورٹ نہیں بن سکتا: سابق جج
اس معاملے پر سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیا ہے، اگر ازخود نوٹس ہی لینا تھا تو پہلے ہی لے لیتے جب فل کورٹ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’184/3 کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ تحقیقات کرے بلکہ ان کو لامحالہ کوئی جوڈیشل کمیشن یا انکوائری کمیشن تشکیل دینا پڑے گا جو تمام واقعے کی تحقیق کرے اور سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ جمع کروائے۔‘
بقول شاہ خاور: ’تحریک انصاف کے وکلا جانتے بوجھتے فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 ایکٹ نافذ العمل ہے اور اس میں 184/3 کے کیسز میں انٹرا کورٹ اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ابھی فل کورٹ بنا دے؟
’پھر اپیل کا حق کہاں جائے گا کیونکہ اپیل کے لیے فیصلہ کرنے والے بینچ سے لارجر بینچ بنایا جاتا ہے تو یہ سات رکنی بینچ اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی فریق جائے گا اور انٹرا کورٹ اپیل دائر کرے گا تو جج سات رکنی بینچ سے زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا خط: اب تک کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے 25 مارچ کو عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر اس معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں، لہذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے خط میں ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہنمائی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ’انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججوں کو دھمکانا عدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے۔ ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘
اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد اسلام آباد کی وکلا تنظیموں نے عدلیہ میں مداخلت کی شدید مذمت کی اور اس معاملے پر چیف جسٹس پاکستان سے نہ صرف ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا بلکہ مداخلت کی تحقیقات کروا کر ملوث افراد کو قرار واقعی سزا کی بھی استدعا کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے خط موصول ہونے کے بعد 26 مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام جج صاحبان کے ساتھ ملاقات کی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامے کے مطابق ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں تمام ججوں کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا گیا۔
بعدازاں 27 مارچ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام ججوں کا فل کورٹ اجلاس بلایا گیا، جس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے بھیجے گئے خط میں اٹھائے گئے نکات پر غور کیا۔ فل کورٹ میں ججوں کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ صورت حال کی سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس وزیراعظم سے ملاقات کریں۔
28 مارچ کو وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان کے ہمراہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ، سینیئر جج منصور علی شاہ اور سپریم کورٹ کی رجسٹرار سے ملاقات کی۔
سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ججوں کے معاملات اور عدالتی کام میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
اس ملاقات کے بعد ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کی سربراہی کے لیے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا نام چنا گیا لیکن انہوں نے آئینی وجوہات دے کر کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہائی کورٹ کے ججوں نے یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا تھا، چیف جسٹس ادارہ جاتی سطح پر اس معاملے کو بہتر حل کر سکتے ہیں کیونکہ ججوں کے خط میں آئینی مشاورت کا کہا گیا ہے۔‘
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی بھی خط لکھنے والوں میں شامل ہیں۔
ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر 31 مارچ کو ملک بھر کے 300 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
وکلا کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا نوٹس لے اور تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر سماعت کرے۔

<p class="rteright">سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا منظر (انڈپینڈنٹ اردو)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/wpk8A72