اڈولیسنس: وہ سیریز جسے برطانوی پارلیمان میں دکھانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے

News Inside

نیٹ فلکس کی منی سیریز ’اڈولیسنس‘ (Adolescence) جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ایک نوجوان کی زندگی کی بےرحمی کی حد تک حقیقت پسندانہ اور دہلا دینے والی تصویر پیش کرتی ہے۔

اس سیریز نے نہ صرف نوجوانوں کے والدین کو دہلا دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس پر بحث اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

اس شو کو پہلے چار دنوں میں دو کروڑ 43 لاکھ لوگوں نے دیکھا، جب کہ یہ 71 ملکوں میں نیٹ فلیکس کی ریٹنگ میں پہلے نمبر پر جا رہا ہے۔

شو کی بازگشت برطانوی سیاسی حلقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اسے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے خلاف تشدد ’نفرت انگیز ہے، اور ہمیں اس پر قابو پانا ہو گا۔‘

حکمران جماعت لیبر سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان انیلیز مڈگلی نے کہا کہ اس سیریز کو پارلیمان میں دکھایا جانا چاہیے جب کہ سٹارمر نے بھی اس کی تائید کی ہے۔

یہ سیریز والدین کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ سوچیں ان کے نوجوان بچے بچیاں کیا کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر کس قسم کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔

اڈولیسنس ان نوجوانوں کے تجربات بیان کرتی ہے جو عمر کے اس حصے میں ہیں جب وہ اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرم ہوتے ہیں۔
 
دوسری جانب یہ ان والدین کا مخمصہ بھی بیان کرتی ہے جو اپنے بچوں کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے صرف چند برسوں کے اندر اندر ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان اتنا فرق آ چکا ہے جیسے وہ دو الگ سیاروں کی مخلوق ہوں۔
 
پولیس افسران تمام تر کوشش اور محکمے کے وسائل استعمال کر کے جس بات کا پتہ نہیں چلا سکے، وہ ایک پولیس افسر کے 13 سالہ بیٹے نے معلوم کر کے بتا دی اور اس کے الفاظ تھے کہ اس کا باپ غلط سمت میں ٹکریں مار رہا ہے اور اسے یہ دیکھ کر خجالت محسوس ہو رہی ہے۔
سیریز ایک نوجوان لڑکی کے قتل کے واقعے کے گرد گھومتی ہے، لیکن یہ اس طرح کی جاسوسی سیریز نہیں جس میں پولیس قاتل کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے اور سراغ حاصل کرتے کرتے قاتل تک جا پہنچتی ہے۔ 
 
اڈولیسنس میں قاتل کا پتہ شروع ہی میں لگ جاتا ہے، مگر یہ قتل اس نے کیوں کیا، وہ کون سے سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی دباؤ تھے جنہوں نے اسے اس انتہائی قدم پر اکسایا، یہ اس سیریز کا اہم موضوع ہے۔
 
چونکہ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ اور تہہ در تہہ ہے، اس لیے سیریز میں بھی سادہ اور سامنے کے آسان حل نہیں بتائے گئے۔ مثال کے طور پر یہ بڑا آسان ہوتا کہ ہمیں دکھایا جاتا کہ باپ لڑکے پر تشدد کرتا تھا اس لیے اس نے قتل کیا، یا اسے کسی اور قسم کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اڈولیسنس کے تمام اداکاروں کی اداکاری انتہائی شاندار ہے۔ خاص طور پر جیمی ملر کا کردار ادا کرنے والے اوون کوپر اور اس کے والد کا کردار نبھانے والے سٹیون گریم نے اپنے کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔ گریم اس سیریز کے شریک خالق اور مصنف بھی ہیں۔

اڈولیسنس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی منفرد فلم بندی ہے۔ ہدایت کار نے کہانی سنانے کے لیے ایک عجیب و غریب اور انتہائی مشکل طریقہ استعمال کیا کہ ہر قسط صرف ایک ہی شاٹ میں فلمائی گئی ہے۔

ہر قسط تقریباً ایک گھنٹے پر محیط ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے کتنی محنت کی گئی ہو گی اور کتنی بار ہر شاٹ کی ریہرسل کی گئی ہو گی۔

مشکل کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عام طور پر فلموں کے شاٹ اوسطاً صرف چار پانچ سیکنڈ دورانیے کے ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ عملے کو صرف چار پانچ سیکنڈ کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے پر اڈولیسنس کے ایک گھنٹے پر محیط دورانیے میں مکالمے یاد رکھنا، کیمرے کی پوزیشن، اور دوسرے عملے کی کوریاگرافی بےحد مشکل ہوتی ہے اور اڈولیسنس میں یہ کام ناقابلِ یقین حد تک عمدگی سے سرانجام دیا گیا ہے۔

اس تکنیک کی وجہ سے حقیقت کا عنصر واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور ناظرین خود کو کہانی کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ جو سکرین پر دکھایا جا رہا ہے وہ حقیقی ہے۔ 
 
بعض اوقات اس قسم کے تجربات شعبدہ بازی لگتے ہیں مگر اڈولیسنس کو صرف چار شاٹس میں فلمانے کا فیصلہ کہانی کے تاثر کو اجاگر کرنے اور اسے حقیقت سے قریب تر کرنے میں بہت کامیاب رہا اور شاید اسے روایتی طریقے سے فلمایا جاتا تو یہ سیریز اتنی موثر ثابت نہ ہوتی۔
 
اڈولیسنس ایک طاقت ور اور یادگار سیریز ہے جو لڑکپن اور اوائل جوانی کی حقیقتوں کو بےنقاب کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی سیریز ہے جو آپ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور آپ کو ان نوجوانوں کے بارے میں ہمدردی محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہے جو اس مشکل دور میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
یہ سیریز معاشرے میں نوجوانوں کے مسائل پر بحث کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
نیٹ فلکس کی سیریز ’اڈولیسنس‘ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ایک نوجوان کی زندگی کی بےرحمی کی حد تک حقیقت پسندانہ اور دہلا دینے والی تصویر پیش کرتی ہے۔
منگل, مارچ 25, 2025 - 06:45
Main image: 

<p>نیٹ فلکس کی سیریز ’اڈولیسنس‘ &nbsp;کا ایک منظر (نیٹ فلکس)</p>

type: 
SEO Title: 
اڈولیسنس: وہ سیریز جسے برطانوی پارلیمان میں دکھانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے


from Independent Urdu https://ift.tt/CMzUuDZ

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !
&lt;div class=&#039;sticky-ads&#039; id=&#039;sticky-ads&#039;&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-close&#039; onclick=&#039;document.getElementById(&amp;quot;sticky-ads&amp;quot;).style.display=&amp;quot;none&amp;quot;&#039;&gt;&lt;svg viewBox=&#039;0 0 512 512&#039; xmlns=&#039;http://www.w3.org/2000/svg&#039;&gt;&lt;path d=&#039;M278.6 256l68.2-68.2c6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0L256 233.4l-68.2-68.2c-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3l68.2 68.2-68.2 68.2c-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3 6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0l68.2-68.2 68.2 68.2c6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0 6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6L278.6 256z&#039;/&gt;&lt;/svg&gt;&lt;/div&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-content&#039;&gt; &lt;script type=&quot;text/javascript&quot;&gt; atOptions = { &#039;key&#039; : &#039;9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75&#039;, &#039;format&#039; : &#039;iframe&#039;, &#039;height&#039; : 90, &#039;width&#039; : 728, &#039;params&#039; : {} }; document.write(&#039;&lt;scr&#039; + &#039;ipt type=&quot;text/javascript&quot; src=&quot;http&#039; + (location.protocol === &#039;https:&#039; ? &#039;s&#039; : &#039;&#039;) + &#039;://www.profitablecreativeformat.com/9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75/invoke.js&quot;&gt;&lt;/scr&#039; + &#039;ipt&gt;&#039;); &lt;/script&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt;