اسرائیل کی جانب سے 13 جون کو ایران کی متعدد فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ایرانی فوج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی کے علاوہ کئی جوہری سائنس دانوں کی موت کے بعد تہران کے جوابی حملے جاری ہیں جب کہ اسرائیل بھی مختلف ایرانی شہروں اور تنصیبات پر میزائل حملے کر رہا ہے۔
ایران نے اسرائیلی حملوں کا ’سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کیا تھا اور اسی سلسلے میں اس نے ’آپریشن وعدہ صادق سوم‘ کے نام سے کی گئی بھرپور جوابی کارروائی میں اسرائیل پر مختلف وقفوں سے سینکڑوں میزائل داغے ہیں۔
ایران اور اسرائیلی جنگ کی اپ ڈیٹس یہاں دیکھیے:
جی سیون کی اسرائیل کی حمایت، ایران ’عدم استحکام‘ کا ذریعہ قرار
گروپ آف سیون (جی سیون) ممالک نے پیر کی شب جاری ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیل کی حمایت کی اور اس کے حریف ایران کو مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا ذریعہ قرار دیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں خطے میں امن اور استحکام کی اپیل کی گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جی سیون سربراہ اجلاس چھوڑ کر امریکہ واپسی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو کینیڈا میں ہونے والا گروپ سیون سربراہ اجلاس چھوڑ کو امریکہ واپس چلے گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پہاڑی تفریحی مقام کاناناسکس میں جی سیون رہنماؤں کے ساتھ گروپ فوٹو کے موقعے پر انہوں نے کہا: ’مجھے جتنی جلدی ہو سکے واپس جانا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ کل بھی یہاں رہوں، لیکن (سب) جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا معاملہ ہے۔‘
کینیڈا اور یورپی رہنماؤں نے امید ظاہر کی ایران اسرائیل بحران پر جی سیون کا مشترکہ بیان تیار کیا جائے گا، لیکن سفارت کاروں کے مطابق ٹرمپ نے امریکہ کو اس میں شامل کرنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔
ٹرمپ نے اپنی قبل از وقت واپسی کے اعلان سے قبل صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’جیسے ہی میں یہاں سے جاؤں گا، ہم کچھ کریں گے۔‘
سب کو فوری طور پر تہران خالی کر دینا چاہیے: ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ’فوری طورپر تہران خالی کرنے‘ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو ان کے تجویز کردہ ’معاہدے‘ پر دستخط کر لینے چاہیے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر لکھا: ’ایران کو اس ’معاہدے‘ پر دستخط کر لینے چاہیے تھے جس پر میں نے انہیں دستخط کرنے کو کہا تھا۔ کتنی شرم کی بات ہے اور انسانی زندگی کا ضیاع۔ سیدھے الفاظ میں ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔ میں بار بار یہ کہ چکا ہوں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے ایرانی شہریوں پر زور دیتے ہوئے لکھا: ’سب کو فوری طور پر تہران کو خالی کر دینا چاہیے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا: ’سب سے پہلے امریکہ کا مطلب بہت سی عظیم چیزیں ہیں، بشمول یہ حقیقت کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں!‘
13 جون کو ایران پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد تہران کی جوابی کارروائیوں نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں 15 جون کو ہونے والے امریکہ ایران جوہری مذاکرات کو متاثر کیا اور ان کا انعقاد نہ ہو سکا۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری عزائم، پابندیوں اور یورینیم افزودگی پر جاری تعطل کو ختم کرنا تھا۔
اگرچہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی حملوں کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں تھا، تاہم ایران نے موقف اختیار کیا کہ امریکہ اس حملے کے ’نتائج کا ذمہ دار‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر نے 13 جون کو ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’ہم نے انہیں (ایران کو) موقع دیا لیکن انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا، میرا خیال ہے یہ شاندار (کارروائی) تھی، اُن پر جتنا سخت حملہ ممکن تھا، وہ کیا گیا اور ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ بہت زیادہ۔‘
دوسری جانب ایران نے اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر تنازع ہوا تو وہ امریکی اڈوں پر حملہ کر دے گا۔
ایران جوہری پروگرام کو اپنا ’ناقابل گفت و شنید‘ حق قرار دیتا ہے جبکہ واشنگٹن نے اسے ایک ’سرخ لکیر‘ کہا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کہہ چکے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی ایران کے جوہری پروگرام کی ’کنجی‘ ہے اور واشنگٹن کو اس معاملے پر ’بولنے کا کوئی حق نہیں۔‘
فی الحال ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے اور اگرچہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح تک نہیں پہنچا، لیکن اس کے قریب ضرور ہے۔
مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جبکہ تہران اصرار کرتا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
دوسری جانب قوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے (12 جون) کو باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ ایران اپنی جوہری ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا۔
ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر پھر حملے
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے چوتھے روز دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا کہ پیر کی شب اسرائیل کو نئے میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرکاری ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ ’مقبوضہ علاقوں (اسراائیل) پر میزائلوں کا نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے بھی ایران کی جانب میزائل داغے گئے۔
اے ایف پی نے اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ایرانی حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں اب تک کم از کم 24 افراد کی موت ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی حکام کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 224 اموات ہوئی ہیں، جن میں اعلیٰ فوجی کمانڈر، جوہری سائنس دان اور عام شہری شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل ’ایک کے بعد ایک‘ ایران کی سکیورٹی قیادت کو ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدل رہے ہیں اور یہ خود ایران کے اندر بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

<p class="rteright">امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 16 جون 2025 کو البرٹا، کینیڈا میں گروپ آف سیون (جی سیون) سربراہی اجلاس کے دوران (اے ایف پی)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/KnVdIzB