خواجہ آصف صاحب سے 10 سوالات؟

News Inside

خواجہ آصف صاحب نے کسی کہنہ مشق رپورٹر کی طرح اوپر تلے کرپشن کے بارے میں بریکنگ نیوز دینا شروع کر دی ہیں۔ سوال یہ کہ خواجہ صاحب سادہ بہت ہیں یا بے نیاز بہت؟

خواجہ صاحب نے جہاں بیوروکریسی پر فرد جرم عائد کی کہ آدھی بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے وہیں انہیں یہ شکوہ بھی ہے کہ گٹکے کی درآمد پر صاحب اقتدار لوگوں میں رسہ کشی ہو رہی ہے لیکن صحافت کو کچھ خبر ہی نہیں، کیونکہ اس میں تحقیق کے لیے محنت ختم ہو چکی ہے اور بس ’چالو سیاسی صحافت کا دور دورہ ہے‘۔

خواجہ صاحب کے ان آدھے اداھورے گدگدا دینے والے انکشافات کا معروضی تجزیہ بہت ضروری ہے۔ آئیے نمونے کے طور پر چند سوالات پر غور کرتے ہیں۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وطن عزیز کی آدھی بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے یا یہ شام کے اخبارات کے چٹ پٹے ضمیموں  جیسی ایک خبر ہے؟ 

خواجہ آصف وفاقی وزیر ہیں، اتنا بڑا دعوی انہوں نے بس افتاد طبع سے مجبور ہوکر کر دیا یا اس حوالے سے حکومت کی کوئی تحقیق یا رپورٹ موجود ہے؟

چالو سیاسی صحافت کا کوئی کردار ایسا دعوی کرتا تو یقینا پیکا کا قانون اس کی دہلیز پر دستک دیتا، سوال یہ ہے کیا وفاقی وزیر سے بھی یہ درخواست کی جا سکتی ہے اتنے بڑے دعوے کا کوئی ثبوت پیش کریں تا کہ پتا چلے یہ سچ ہے یا فیک نیوز ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر آدھی بیوکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے تو ظاہر ہے کہ ملکی قانون اس کی اجازت دیتا ہو گا۔

یہ قانون کیا ’چالو سیاسی صحافت‘ نے بنایا ہے یا محترم پارلیمان نے؟

ایسے کسی قانون میں ترمیم پریس کلبوں اور صحافتی تنظیموں نے کرنی ہے یا حکومت نے ؟

کیا خواجہ آصف نے آج تک کوئی ایسا بل پارلیمان میں پیش کیا جو بیوروکریسی کے نظام کی اصلاح سے متعلق ہو؟

خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’پاک سرزمین کو یہ بیوروکریسی پلید کر رہی ہے‘۔

اس سوال کو تو چھوڑ دیجیے کہ کیا یہ اسلوب گفتگو ایک وفاقی وزیر کو زیب دیتا ہے۔

تاہم اس سوال پر ضرور بات ہونی چاہیے کہ اس بیوروکریسی کی اور اس کے اللوں تللوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کون کر رہا ہے؟

چالو سیاسی صحافت یا  پارلیمان میں بنی حکومتیں؟

نیز یہ کہ اس بیوروکریسی میں ان کی اپنی وزارت کی بیروکریسی بھی شامل ہے یا نہیں اور اگر شامل ہے تو خواجہ صاحب نے اس کی بہتری کے لیے کیا قدم اٹھایا ہے؟

یہ گویا آج کا تیسرا سوال ہوا۔

چوتھا سوال یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے جس بیوروکریٹ کا ذکر کیا کہ وہ بیٹیوں کی شادی پر چار ارب کی سلامی لے چکا ہے اس کا نام کیوں نہیں لیا؟

یہ ’عثمان بزدار کا بیوروکریٹ‘ کیا ہوتا ہے؟

غصہ اس کی کرپشن پر ہے یا اس بات پر ہے کہ وہ ن لیگ کا بیوروکریٹ نہیں تھا بلکہ بزدار کا بیوروکریٹ تھا؟

پانچواں سوال یہ ہے کہ بیوروکریسی کو ناجائز مراعات کس نے دے رکھی ہیں؟

چالو سیاسی صحافت نے یا حکومت نے؟

کیا کمشنر سرگودھا کو 104 کنال کا محل سرگودھا پریس کلب نے الاٹ کیا ہے؟

آئی جی اور چیف سیکریٹری کو ریٹائرمنٹ پر ہائی کورٹ کے جج کے برابر مراعات کا قانون کیا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے پاس کیا تھا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا یہ قانون چالو سیاسی صحافت کے مطالبے پر بنایا گیا ہے اراکین پارلیمان اور ان کے اہل خانہ کو تاحیات میڈیکل سہولت دی جائے گی جو گریڈ 22 کے بیوروکریٹ کے برابر ہو گی؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ہمارے بیورکریٹ کی اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے سٹاف کی تنخواہ سے 12 فیصد زیادہ ہے۔

یہ قانون کس نے بنایا اور کیا یہ صحافیوں کے اصرار پر بنایا گیا تھا ؟

کیا کبھی خواجہ آصف نے ایوان میں بیٹھ کر اس قانون کو بدلنے کی بات کی؟

ساتواں سوال یہ ہے کہ اگر گٹکے کی درآمد میں ’نامی گرامی صاحب اقتدار لوگوں میں رسہ کشی‘ ہو رہی ہے تو اس کا غصہ  صحافت پر کیوں نکالا جا رہا ہے؟

خواجہ صاحب اپنی حکومت کے ان نامی گرامی شرفا کا ذکر کیوں نہیں کر رہے جو اس رسہ کشی میں مصروف ہیں؟

صحافت کو لعن طعن کرنے کی بجائے یہی سوال وزیر اعظم سے کر لیتے کہ ان کی کابینہ کے نامی گرامی لوگ گٹکے کی درآمد پر جھگڑ رہے ہیں اور انہیں علم ہی نہیں؟

صحافت میں تو مان لیا تحقیق کی عادت نہیں رہی، خواجہ صاحب ہی اپنی تحقیق کو وزیر اعظم اور قوم کے سامنے رکھ دیتے۔

 اسلام آباد میں اس وقت بھی کوئی مقامی حکومت نہیں۔ نہ یہاں کوئی ایم پی اے ہے، پورا شہر چیف کمشنر نامی ایک بیوروکریٹ کے حوالے کیا جا چکا ہے جس کے پاس وزیر اعلی کے برابر اختیارات ہیں۔

آٹھواں سوال گویا یہ ہوا کہ کیا کبھی خواجہ آصف نے پارلیمان میں کھڑے ہو کہا کہ اسلام آباد کے شہریوں پر مسلط یہ نو آبادیاتی بیوروکریٹک بندوبست ختم کیا جائے اور چیف کشمنر سے وزیر اعلی کے اختیارات واپس لیے جائیں؟َ

’چالو سیاسی صحافت‘ تو اسلام آباد کلب سے لے کر جم خانہ تک سرکاری زمینوں پر بنے بیوروکریسی کے ان عشرت کدوں اور سینکڑوں کنالوں پر پھیلے ان کے سرکاری گھروں  پر لکھ لکھ کر تھک گئی لیکن پارلیمان میں جہاں ایک دن کا اوسط خرچہ آٹھ کروڑ سے بھی شاید تجاوز کر چکا ہے، کیا کبھی بیوروکریسی کے اللے تللوں پر بات ہوئی؟ اسے آپ نواں سوال سمجھ لیجیے۔

دسواں سوال یہ ہے کہ تحقیقاتی صحافت اگر ’چالو سیاسی صحافت‘ میں بدل گئی ہے تو کیا اس سفر میں مسلم لیگ ن کا بھی کوئی کردار ہے جس نے اپنے حصے کے صحافیوں کو وزیر، مشیر اور سفیر بنانا شروع کیا اور جو مبلغ 10 جماعتیں بھی پاس نہیں تھے انہیں اکادبی ادبیات جیسے اداروں کی سربراہی عطا فرما دی؟

وفاقی وزیر نے بھی بیوروکریسی اور اس کی کرپشن اور حکومتی شخصیات کی کرپشن پر صحافیوں کی طرح  صرف بریکنگ نیوز ہی دینی ہے تو یہ وزارتیں کس کام کی ہیں؟ یہ منصب اور یہ اقتدار کیا صرف اقوال زریں سنانے کے کام آتا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

خواجہ صاحب کے ان آدھے اداھورے گدگدا دینے والے انکشافات کا معروضی تجزیہ بہت  ضروری ہے۔ آئیے نمونے کے طور پر چند سوالات پر غور کرتے ہیں۔
جمعرات, اگست 7, 2025 - 06:45
Main image: 

<p>پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف 18 جون، 2025 کو عرب نیوز کو انٹرویو دے رہے ہیں (عرب نیوز)</p>

type: 
SEO Title: 
خواجہ آصف صاحب سے 10 سوالات؟


from Independent Urdu https://ift.tt/R5r7Gyo

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !
&lt;div class=&#039;sticky-ads&#039; id=&#039;sticky-ads&#039;&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-close&#039; onclick=&#039;document.getElementById(&amp;quot;sticky-ads&amp;quot;).style.display=&amp;quot;none&amp;quot;&#039;&gt;&lt;svg viewBox=&#039;0 0 512 512&#039; xmlns=&#039;http://www.w3.org/2000/svg&#039;&gt;&lt;path d=&#039;M278.6 256l68.2-68.2c6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0L256 233.4l-68.2-68.2c-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3l68.2 68.2-68.2 68.2c-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3 6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0l68.2-68.2 68.2 68.2c6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0 6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6L278.6 256z&#039;/&gt;&lt;/svg&gt;&lt;/div&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-content&#039;&gt; &lt;script type=&quot;text/javascript&quot;&gt; atOptions = { &#039;key&#039; : &#039;9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75&#039;, &#039;format&#039; : &#039;iframe&#039;, &#039;height&#039; : 90, &#039;width&#039; : 728, &#039;params&#039; : {} }; document.write(&#039;&lt;scr&#039; + &#039;ipt type=&quot;text/javascript&quot; src=&quot;http&#039; + (location.protocol === &#039;https:&#039; ? &#039;s&#039; : &#039;&#039;) + &#039;://www.profitablecreativeformat.com/9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75/invoke.js&quot;&gt;&lt;/scr&#039; + &#039;ipt&gt;&#039;); &lt;/script&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt;