جن دنوں میں الفریڈ کوپر وولنر (سنسکرت کے معروف عالم اور وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، لاہور، متحدہ ہندوستان) کی سوانح مرتّب کر رہا تھا۔ کئی دل چسپ باتیں مشاہدے میں آئیں۔
مثلاً برطانوی جامعات اپنے تاریخی کاغذات کی کیوں کر حفاظت کرتی ہیں، دستاویزات کی جمع آوری اور تہذیب میں کون کون سے سائنسی طریقے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ۔ ٹرینیٹی کالج کا تو پوچھنا ہی کیا۔ اِپسوچ گرائمر سکول نے وولنر کے بچپن کی تصویریں، کھیلوں کے ریکارڈ، مباحثے کے تحریری ملخّص، حتیٰ کہ سکول کی لائبریری سے نکلوائی جانے والی کتب کی فہرست تک مہیا کی۔
یاد رہے کہ اس درس گاہ میں وولنر نے ساتویں اور آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بات صرف علمی معاونت کی نہیں، سکول کے موجودہ و جواں سال پرنسپل بار بار اس تاریخی کام کی تکمیل پر اصرار کرتے رہے۔
ٹرینیٹی کالج کی سن رسیدہ آرکائیوسٹ نے وولنر کی سالانہ تصاویر، داخلہ ٹیسٹ میں لکھے جانے والے مضمون کا عکس، لائبریری سے ایشو کردہ کتابوں کی فہرست، ہر سال کے نتائج، سفر و تعطیلات کی تفصیلات، دارالاقامہ کی جزیات اور دیگر اتنا کچھ مہیا کیا کہ تصاویر و دستاویزات کی کل تعداد 70 سے تجاوز کر گئی۔
کئی عکس بھیجنے کے لیے مہنگی ایپس کا استعمال کیا گیا تاکہ تصویروں کا معیار برقرار رہے۔ ظاہر ہے یہ خرچ خود ٹرینیٹی کالج نے ادا کیا۔ اس سارے علمی سفر میں ہر سوال کا تفصیلی جواب 24 سے 36 گھنٹے کے اندر اندر دیا گیا۔ انیسویں صدی کے برطانیہ کو سمجھنے کے لیے، آکسفورڈ یونیورسٹی کے جغرافیے کے پروفیسر نے نہ صرف پرانے نقشے مہیا کیے، بلکہ کئی مشکل مقامات کی تسہیل بھی کی۔ مجھے تفصیلی ای میلز لکھیں اور نئی راہیں سجھائیں۔ یہی حال کلیسا کے منتظمین سے ملنے والے معلومات کا ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ یہ تخصیص الفریڈ وولنر کے لیے نہیں، ہر خاص و عام طالب علم کا حال جاننے کا یہی کلیہ ہے۔
پوچھنے پر معلوم ہوا: آکسفورڈ یونیورسٹی کا پہلا اندراجی رجسٹر 1552 میں بنایا گیا۔ اس رجسٹر میں ہر طالب علم کے ذاتی کوائف کے علاوہ خانگی حالات کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ سولہویں صدی کے آکسفورڈ میں خاندانی حالات کی مَد میں ایک لازمی سوال ہوتا تھا۔ اس سوال کی تاریخی و عملی حیثیت واضح ہے۔
وولنر کی سوانح نے مجھے برطانوی نظامِ تعلیم کو قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ ہندوستان میں بھیجے جانے والے اساتذہ کی تقرری، ہندوستانی تہذیب سے واقفیت، دیسی علوم سے دلچسپی اور اس نوع کے دیگر کئی پہلو الم نشرح ہوئے۔ لاہور کے جغرافیے کا نیا چہرہ بھی سامنے آیا۔
میرے دل میں ہندوستانی اداروں کی تاریخی دستاویزات دیکھنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا کے مصداق، خود جی سی کی تاریخی حیثیت بھی نظر سے اوجھل تھی۔ دل میں آرزو پیدا ہوئی، دماغ میں ذوق۔
نتیجہ یہ ہوا کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جاننے کا اشتیاق ہوا۔ اس منہاج میں میری مراد جُز سے کُل کی جانب سفر تھا۔ دیگر کئی پہلوؤں کے علاوہ تاریخی کاغذات کو دیکھنے کی دُھن سر پر سوار رہی ۔ یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی، جب اربابِ حل و عقد کی مدد سے جی سی کی طلائی کتاب یا Golden Book تک رسائی ممکن ہوئی۔ طلائی کتاب کے نام سے مجھے واہمہ ہوا، شاید یہ جانی مانی اصطلاح ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ جی سی میں دو گولڈن بکس موجود ہیں، ایک پر اکیڈمک جب کہ دوسری پر ایتھلیٹکس لکھا ہے۔ دونوں میں 1904 سے 2000 تک کا ریکارڈ موجود ہے۔ یہاں صرف اکیڈمک گولڈن بک یا تعلیمی طلائی کتاب کی بات کی جا رہی ہے۔
کتاب کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ Golden Book کا نام پانے کی وجہ اس کی ہیئت میں پوشیدہ ہے۔
جہازی سائز کا یہ دفتر تقریباً ایک مُشت اور چار انچ لمبا ہے۔ سیدھے سبھاؤ میں اس کی لمبائی بارہ انچ اور چوڑائی آٹھ انچ ہے۔ دفتر 804 صفحوں پر مشتمل ہے۔ صفحے کی موٹائی مروجہ سکیچ بُک کے صفحے سے دگنی ہے، یعنی صفحے کو الٹنے کو دَم خَم چاہیے۔ اس دبازت نے دفتر کو تاریخ کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔ ابتدائی صفحے کے چاروں کنارے محشیٰ و مطلّا ہیں۔ دوسرا صفحہ خالی ہے جب کہ تیسرے صفحے کے ماتھے پر 1904 مرقوم ہے۔
رجسٹر کے تفصیلی مطالعے سے کھلتا ہے کہ اس میں سالانہ بنیادوں پر کالج کے ان طلبہ کے کوائف درج ہیں جنہوں نے ہر سال اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی حاصل کی ہے۔ قطار کی صورت میں نام ہاتھ سے تحریر کیے گئے گئے ہیں۔ ہر نام کے سامنے طالب علم کے دستخط اور ضروری تفصیلات ہیں۔ تفصیلات میں شعبے کا نام، میڈل کا نام اور سکالر شب کی تفصیل ملتی ہے۔ ان تفصیلات سے ہم سوا صدی پہلے کے جی سی میں وظائف و تمغہ جات کی مکمل فہرست حاصل کر سکتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے:
- آرنلڈ گولڈ میڈل ۔ تاریخ
- خان بہادر شیخ نانک بخش گولڈ میڈل ۔ فلسفہ
- نصیر الدین، دیور گولڈ میڈل ۔ فارسی
- الور گولڈن میڈل ۔ سنسکرت
- دیوان بہادر تھاپر گولڈ میڈل ۔ پولیٹیکل سائنس
- نیوٹن گولڈ میڈل
- پٹیالہ گولڈ میڈل
- ساگر چند گولڈ میڈل
- رام کرشنا گولڈ میڈل
میں نے ان تمغوں اور وظائف کے نام بغیر کسی انتخاب کے جستہ جستہ لکھ دیے ہیں۔
کہیں کہیں ناموں کے ساتھ باریک خط میں ذیلی وضاحتیں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی طالب علم رسمی پڑھائی کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی معروف ہے تو دو تین سطروں میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ہر صفحے پر درج ناموں کی اوسطاً تعداد دس ہے۔
تمغوں کے علاوہ وظائف کی تفصیل میں دلچسپ تفصیلات ملتی ہیں۔ کچھ وظائف کالج خود مہیا کرتا تھا جب کہ دیگر کی معاونت یا تو مختلف نوابین و امرا کرتے تھے یا حکومتی اہلکار۔ مثلاً کالج سکالر شپ خود جی سی کی امداد میں شامل تھا لیکن بھوپال سکالر شپ اور پٹیالہ سکالر شپ متعلقہ ریاست اور شہر کی انتظامیہ کے مرہون منت تھے۔ معروف و مقتدر شخصیات کا دستِ کرم بھی کار فرما تھا۔ مثلاً فُلر ایگزیبیشن سکالر شپ، کُک سکالر شپ، مہادیو سکالر شپ وغیرہ۔
ظاہر ہے پورے دفتر کو ملاحظہ کر کے تمغوں اور وظائف کی مکمل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔ دفتر کے آخری 250 صفحات خالی ہیں۔ آخری مرقوم صفحہ 554 ہے۔
دفتر کے شروع کے صفحات صرف ہاتھ سے لکھے ہیں۔ بعد میں ان میں ٹائپ سے تحریر کردہ کالم بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔ ابتدائی ٹائپ سیاہ رنگ کے ہیں۔ صفہ نمبر 118 کے بعد کے ٹائپ میں نیلا ٹائپ بھی شامل ہو جاتا ہے۔
ٹائپ کے کالم میں صرف شعبوں، تمغوں اور وظیفوں کی تفصیل ملتی ہے۔ نام اور دستخط تمام دفتر میں ہاتھ ہی سے درج ہیں الا ماشااللہ۔
کہیں کہیں تحریری نام کی جگہ ٹائپ کے شذرے بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد پانچ سے سات فیصد کے درمیان ہے۔ ناموں کا اندراج نہایت خوب صورتی سے کیا گیا ہے۔ کئی کئی کالم کا یکساں خط بتاتا ہے، نام لکھنے کا اعزاز کسی ایک صاحب کو تفویض تھا۔ غور سے دیکھنے پر کھلتا ہے کہ ناموں کا اندراج پہلے کچی پنسل سے کیا جاتا رہا، بعد ازاں ان پنسل زدہ ناموں پر قلم پھیر دیا گیا۔ دستخطوں کے انداز اور انگریزی لکھنے کا اسلوب دور وسطی کی Flowery Writing کی یاد تازہ کرتا ہے۔
دفتر میں مختلف رنگوں کی روشنائی استعمال ہوئی ہے، جن میں نیلی، سیاہ، بھوری اور سبز نمایاں ہے۔ کہیں کہیں روشنائی کا مزاج گہرا اور ہلکا ہے۔ قلم کا قَط زیادہ تر موٹا اور ترچھا ہے۔
مکمل یکسوئی سے دیکھنے پر کھلتا ہے کہ انعام یافتہ طلبہ کی 90 سے 95 فیصد تعداد ہندو یا سکھ ہے۔ چوں کہ ہمارے پاس جین یا بدھ طلبہ کو ناموں سے جانچنے کا پیمانہ موجود نہیں ہے لہذا ان کی تحدید ممکن نہیں۔
مسلمان طلبہ بہ قدر اشکِ بلبل ہیں البتہ عربی فارسی میں ان کی نمائندگی زیادہ ہے۔ سنسکرت اور ہندی کے تمغے عربی اور فارسی سے زیادہ ہیں۔ کہیں کہیں اکا دکا طالبات بھی شامل ہیں۔ طالبات کے ناموں اور شعبوں سے اس عہد کی تدریسی ترجیحات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
تمغوں اور شعبوں کے ناموں سے یہ معلومات بھی سامنے آتے ہیں کہ اس وقت مختلف علوم کی کون سی شاخوں کی تدریس کی جاتی تھی۔
مثلاً کیمسٹری کے ضمن میں نامیاتی و غیر نامیاتی کے علاوہ ٹیکنیکل کیمسٹری شامل ہے، بلکہ ٹیکنیکل کیمسٹری کے اعزازات کسی قدر زیادہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح سائیکالوجی میں بِیسک سائیکالوجی اور کامپلیکس سائیکالوجی کا نام ملتا ہے۔ میں ان شاخوں کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہوں لیکن یہ امر بجائے خود حیرت انگیز ہے کہ 1947 سے پہلے پہلے (جب کہ خود فرائڈ 1938 میں فوت ہوا) نفسیات کو تخصیص کی سطح پر پڑھایا جاتا تھا۔
اس رجسٹر میں کئی تاریخی شخصیات کا نام بھی ملتا ہے۔ مثلاً دین دیال شرما اور پرکاش مہرا۔ ان دونوں کا شمار بعد ازاں ہندوستان کے بہترین ماہرینِ تعلیم میں ہوا۔
میں نے اس دفتر کے سال 1947 کے اندراج کو خاص طور پر دیکھا ہے۔ ظاہر ہے اس فہرست میں صرف سال چہارم کے طلبہ شامل ہو پائے ہوں گے۔ سال سوم اور دیگر سالوں کے نمایاں اور ذہین طلبہ تاریخ کی دھند میں گم ہیں۔ چند نام ملاحظہ ہوں:
کرشن کپور، اشوک کمار، مس امریتا گروور، عنایت اللہ، ہربنس لال، یوگندرا کمار، گرو بچن سنگھ، آشیش رام۔
ایک اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ یہ فہرست بیسویں صدی کے ہندوستان کے ذہین ترین لوگوں کا ریکارڈ سامنے لاتی ہے۔ سوچیے انہوں نے ہندوستان میں اپنے اپنے شعبوں میں کیسے نمایاں کام سر انجام دیے ہوں گے۔ میرا خیال ہے، یونیورسٹی کی سطح پر ان کو ڈھونڈ نکالنا کچھ ایسا مشکل نہیں۔
1948 کی فہرست میں چند سکھ طلبہ موجود ہیں لیکن ہندو طلبہ کا کہیں نشان نہیں۔
قصہ مختصر اس دفتر کو بنیاد بنا کر پاکستان، انڈیا اور لاہور کی تاریخ میں نئی نئی راہیں کھوجی جا سکتی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

<p class="rteright">19 جنوری 2022 کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی عمارت کا فضائی منظر (فیس بک، جی سی یو لاہور)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/09tGmQU