کیا آپ اپنے گھر والوں کی تمام ضروریات کے دیے گئے ٹاسک پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی رہتی ہیں جس کے لیے آپ کو 24 گھنٹے بھی کم لگتے ہیں؟
کیا کوئی بھی بتائے جانے والا کام اگر پورا نہ ہو جس کی ذمہ دار آپ نہیں آپ کو اس پر شرمندگی رہتی ہے؟
کیا نیند میں بھی آپ کو ایسے خواب آتے ہیں جس میں آپ لڑائیوں کو سلجھانے سے لے کر خفا ہونے والوں کو منانے کا کام کر رہی ہوتی ہیں؟
کیا آپ سے انکار نہیں کیا جاتا؟
کیا دوسروں کی خرابیوں کی ذمہ دار آپ خود کو سمجھتی ہیں؟
کیا آپ اپنی ضروریات اور جذبات سے زیادہ گھر والوں کی پسند ناپسند کو اہمیت دیتی ہیں؟
اگر یہ سب آپ کے ساتھ ہو رہا ہے تو مبارک ہو آپ ’اچھی بیٹی سنڈروم‘ (Good Daughter Syndrome) کا شکار ہیں اور اگر اس میں جنریشل ٹراما بھی شامل کر دیں تو یہ نسخہ مکمل ہے۔
جنریشنل ٹراما ایک خاموش زہر؟
یہ ایک ایسا عمل ہے جو شعوری طور پر نہیں بلکہ رویوں اور جذباتی ردعمل کے طور پر ایک نسل سے دوسری میں منتقل کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایسے والدین جو ماضی میں خود غیر محفوظ رہے ہو وہ اپنے بچوں کے ساتھ اوور پروٹیکٹیو رویہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح خوف، غصہ، شرمندگی یا احساس جرم کے رویے کے ساتھ بچوں سے بات کرنا بھی ان کے اندر ایسے ہی رویوں کو جنم دیتا ہے جسے وہ نارمل سمجھتے ہیں۔
اگر کسی گھر میں دکھ تکلیف پر کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں تو وہاں والدین بچوں کو ہمیشہ یہ باور کرواتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں اور اس پر باہر کسی سے کوئی بات نہیں کرنی یہاں تک کہ گھریلو تشدد، بدسلوکی، گالم گلوچ تک کو ایسے گھرانوں میں یہ کہہ کر کہ ’ایسا تو ہر جگہ ہوتا ہے میرے ساتھ بھی ہوا تھا،‘ بچوں کو کسی بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرتے وقت انہیں ایک احساس شرمندگی میں ڈال دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی بری صورت حال کے خود ذمہ دار ہیں۔
یہ ایک ایسا خاموش زہر ہے جس کی منتقلی کا آغاز ان ہی باتوں سے ہوتا ہے کہ میرے ساتھ ایسا ہوا میں نے یہ سہا ہم نے یہ جھیلا اور یہ باتیں کبھی بھی نہیں رکتیں، سالہا سال چلتی رہتی ہیں جو سننا ایک عادت اور اس کو ذہن میں بٹھا لینا نارمل رویہ بن جاتا ہے۔
میں بھی اپنی ماں جیسی ہوتی جا رہی ہوں
میں نہیں چاہتی کہ جب میں 50 سال کی عمر میں پہنچوں تو امی کی طرح بن چکی ہوں۔ یہ کہنا ہے سعدیہ کا جن کی عمر اس وقت 30 برس ہے اور وہ گھر کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ ان کا بچپن جنریشنل ٹراما لے کر اس عمر تک پہنچا ہے اور وہ اس ٹراما کو ختم کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔
سعدیہ کے مطابق بچپن سے اب تک انہوں نے اپنی والدہ سے بس یہی سنا ہے کہ وہ چونکہ بڑی بیٹی ہیں اس لیے انہیں باقی بہن بھائیوں کے لیے مثالی بننا ہے۔ اچھا پڑھنا لکھنا ، گھر داری سے لے کر خاندان کو نبھانا اور گھر کے کشیدہ ماحول میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے گھر میں کیا کچھ ہوتا ہے اس کا ذکر انہیں کہیں بھی نہیں کرنا۔
سعدیہ کے بقول انہوں نے اپنی زندگی میں سکول سے لے کر یونیورسٹی تک بہت دوست بنائے اور پھر وہ دوستیاں ختم بھی ہوئیں جس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ وہ دوستیں ان کی والدہ کو بالکل پسند نہیں تھیں۔ ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی دوستیں ان کو بگاڑنے کے لیے ان کی زندگی میں شامل ہیں یا پھر کسی مالی فائدے کے لیے، یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک ایک کر کے تمام دوستیاں ختم کرنی پڑیں کیونکہ ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں باہر دوستیں ڈھونڈنے کی کیا ضرورت؟
وہ کہتی ہیں کہ ’اب میں تھک چکی ہوں اور یہ محسوس کرتی ہوں کہ عمر کے اس حصے میں نہ صرف میں اکیلی ہوں بلکہ اب میں اسی طرح ججمنٹل ہو چکی ہوں جیسی میری ماں ہیں اور یہ بات مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘
یہ صرف سعدیہ کا مسئلہ نہیں اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو آپ کو ہر اس گھر میں جہاں پہلی اولاد بیٹی ہو گی مسائل نظر آئیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ ہر گھر کا مسئلہ ہو لیکن اگر پہلی اولاد بیٹی ہو تو والدین کی توقعات اور امیدیں کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہیں۔ یوں یہ بیٹیاں خاموش بوجھ اٹھائے بچپن سے ہی ایک ایسی جدوجہد میں پڑ جاتی ہیں جس کا نام اچھی بیٹی بننا ہے۔
لیکن یہ ترکیب اتنی بھی آسان نہیں اسے روزانہ دھیمی آنچ پرتوقعات کی دیگچی میں طعنوں، طنز، دوسروں کی بیٹیوں کی تعریف یا ان کی کردارکشی کر کے پکایا جاتا ہے۔ جہاں ہانڈی میں ابال آنے لگے تو اسے زور زور سے بھون کر بتایا جاتا ہے کہ خبردار ابھی ہانڈی کچی پکی ہے اور اسے مکمل ہونے میں بہت وقت پڑا ہے اور یوں کئی گھروں میں یہ آنچ کبھی تیز تو کبھی دھیمی چلتی رہتی ہے اور اچھی بیٹی کی ڈش کی مدت سات سال کی عمر سے تادم مرگ جاری رہتی ہے۔
اچھی بیٹی کون ہے؟
اس کی تعریف ذرا مشکل ہے لیکن اگر اس کا شکار ہونے والی بیٹیوں کے تجربات کو سامنے رکھیں تو اپنی خواہشات کی قربانی دینے والی، گھر، سسرال، سماج میں ہر کسی کی مدد کو سب سے پہلے آگے بڑھ کر کرنے والی، بہن بھائی کے مسائل کو بڑھنے سے پہلے روکنے والی، خاندان کو جوڑنے والی سے لے کر والدین جن کے درمیان تعلق اچھا نہ ہو ایک ایسا پل کا کام کرنے والی جس سے وہ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھ سکے۔
ایسی بیٹی کو شکایت تو کیا لڑائی بھی ہو تو اپنا موقف دینے یا بحث کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر یہ بیٹیاں ماں سے شدید قریب نظر آتی ہیں ان کو ایسا بنانے میں ماؤں کی خودپرستی اور نرگسیت سب سے اہم ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں مردوں کے لیے نارسسٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ الگ ہے ۔ یہاں ایسی مائیں جو خود اس کیفیت کا شکار ہوں وہ اپنی بیٹی کو نہ صرف جنریشنل ٹراما دے رہی ہوتی ہیں ساتھ ساتھ یہ باور بھی کرواتی ہیں کہ ان کی بیٹی کو سب اسی طرح کرنا ہے جیسے وہ چاہتی ہیں اگر اس سے ایک انچ بھی بات ادھر ادھر ہوئی تو ان کی بیٹی نہ صرف ان کی بلکہ سماج کی نظروں میں بھی بری ہوجائے گی۔
امی کی سوچوں کی دنیا کو آپ سچ بناتی ہیں
ماہ نور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کے بقول، میں نے ہمیشہ اچھے گریڈز لیے، ڈگری پوری کی جس گھرانے سے میرا تعلق ہے وہاں میں نے والدین میں لڑائی جھگڑے ہی دیکھے لیکن جیسے ہی خاندان والے ہمارے گھر آتے امی ابو ساتھ ایسے بیٹھے نظر آتے جیسے ان سے اچھا جوڑا ہی کوئی نہیں۔
مجھ سے چھوٹی بہنوں کی پسند کی شادیاں ہو گئیں، دو بھائی بھی اپنی مرضی کی شادی کر کے ملک سے باہر جا بسے۔ جب میری شادی کا وقت آیا تو والدہ کو یہی پریشانی تھی کہ نہ جانے کیسے لوگ ملیں، اسی وجہ سے تاخیر چلتی رہی۔
اب جب میری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں تو میں نے شدت سے محسوس کیا کہ کوئی چھوٹی سی بھی بات ہو جائے تو والدہ مجھے بلا لیتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب میری ذمہ داریاں اور بھی ہیں چاہے انہیں کوئی چیز چاہیے ہو یا خاندانی معاملہ ہو اگر میں غلطی سے یہ کہہ دوں کہ سسرال میں مصروف ہوں تو ان کی ناراضگی ختم نہیں ہوتی۔
ان تمام معاملات سے میرے باقی بہن بھائیوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ بھائی اگر آ جائیں تو ان کی خاطر مدارات کے لیے مجھے سسرال سے بلوایا جاتا ہے، یہاں تک کہ باقی بہنوں کے شوہر اور سسرال تک کی دعوت کے لیے مجھے پہلے بلوایا جاتا ہے کہ کھانے کا انتظام میں کروں۔ میری اپنی کیا مصروفیات، خواہشات اورمرضی ہے اس پر کوئی نہیں سوچتا، بس ایک جملہ بار بار کہا جاتا ہے کہ تم بڑی ہو تم نے ہی دیکھنا ہے اور بھائی بہن یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اور اچھی بنو، امی کی تو اپنی سوچوں کی دنیا ہے جسے سچ ثابت کرنے کا ٹھیکہ آپ نے اٹھا رکھا ہے اس لیے اب بھگتنا تو پڑے گا۔
ماہ نور کے بقول اس اچھی بیٹی بننے کے چکر میں، میں کس ذہنی دباؤ اور انجانے خوف میں مبتلا ہوں کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میں بس ڈرتی رہتی ہوں کہ امی ناراض نہ ہو جائیں۔ یہاں تک کہ میرے شوہر تک مجھے کہتے ہیں کہ تمہاری ماں کو تمہاری شادی کرنی ہی نہیں چاہیے تھی کیونکہ تم ذہنی طور پر ہر وقت وہیں ہوتی ہو۔ اور وہاں امی کو گلہ کہ تم اب پہلی جیسی نہیں رہی۔
اچھی بیٹی کب تک خاموشی کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟
گھر والوں کو بتائے بغیر شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے سائیکائٹری کلینک کے باہر اپنی باری کا انتظار کرنے والے 42 سالہ سارہ اس سوچ میں ہے کہ یہاں آنے کا فیصلہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں؟
اچھی بہن، بیٹی، دوست اور بہت سے رشتوں کو نبھاتے ہوئے تھک جانے والی سارہ کو ملال ہے کہ وہ خود کو اچھا ثابت نہیں کر پائی، کوئی اس سے خوش نہیں یہاں تک کہ اس کے چھوٹے بہن بھائی اگر والدین کی بات نہیں مان رہے انہیں وقت نہیں دے رہے تو اس کی ذمہ دار بھی وہ ہے کیونکہ اس نے کچھ کمی چھوڑی ہے جس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔
وہ ہستی جس سے یہ توثیق لینے کے لیے کہ سارہ سب سے اچھی اور فرمانبردار بیٹی ہے اب وہ ہی اس کے خلاف ہے۔ بات بات پر لڑائی، جملے پکڑنا، دوسروں پر رکھ کر منفی کہانیاں سنانا لیکن مقصد اسے نشانہ بنانا، اس کی جانب سے کی جانے والی ساری کوششوں کو ایک لمحے میں یہ کہہ کر ضائع کرنا کہ مجھے پسند نہیں آیا یا یہ ٹھیک نہیں ہے، اس کے ساتھ حقارت سے پیش آنا اب اسے یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ اس سے کہاں کوتاہی ہوئی ہے کہ وہ اب اچھی بیٹی سے بری بیٹی بن چکی ہے۔
اچھی بیٹی کا ٹائٹل لینے کے لیے تو اس نے اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر وہ سب کیا جو اس کے والدین خصوصا والدہ چاہتی تھی ۔ یہی سوچ اب اس کو ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا رہی ہے یہاں تک کہ اس کی برداشت ، مزاج اور اعتماد تک کسی بھی کام کرنے کے لیے زیرو ہوچکا ہے۔
انتظار ختم ہوا، ڈاکٹر کے سامنے مسائل رکھے گئے سامنے سے جو پہلا جواب آیا وہ سارہ کے لیے ناقابل یقین تھا۔ ڈاکٹر کے بقول، سارہ مجھے خوشی ہے کہ آپ آئیں لیکن آج اس کرسی پر آپ کو نہیں آپ کی والدہ کو ہونا چاہیے تھا اگر وہ بروقت آتیں تو شاید آپ کو کبھی آنے کی ضرورت نہ رہتی۔
سارہ کو بتایا گیا کہ ذمہ داریوں کی جو گٹھری اس کے سر پر رکھی گئی ہے جس میں توقعات اور ہر ٹاسک کو پورا کرنے کی شرط کا بوجھ پڑھتا جارہا ہے وہ اسے اب تک بالکل صحیح طرح سے ادا کرتی آئی ہے۔ لیکن ہر چیز کو ٹھیک کرنا اس کی ذمہ داری نہیں جس کی شرمندگی اور پچھتاوا لے کر اسے جینا پڑ رہا ہے سارہ کو ادویات کے ساتھ ساتھ تھیراپی کا بھی مشورہ دیا گیا۔
اس چکر کو کیسے روکا جائے؟
ماہر نفسیات اسے آسان الفاظ میں ایسے بیان کرتے ہیں، جب کوئی کوریئر پارسل یا لفافہ لے کر گھر آئے تو گھر میں موجود شخص یا تو اسے وصول کرتا ہے یا اس کو لوٹا سکتا ہے۔ ایسے میں کوریئر کیا اس فرد کو اصرار کرے کہ اسے ہر صورت یہ قبول کرنا ہو گا؟ ورنہ وہ برا محسوس کرے گا، نہیں وہ اس فرد کی بات سنے گا اور چیز واپس لے جائے گا کیونکہ اس کا کام ایک پارسل کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے کا ہے اور اگر منع ہو جائے یا وہ فرد گھر نہ ملے تو واپس لے جانے کا ہے۔ اس نے اپنا فرض پوری ایمانداری سے نبھایا۔
اسی طرح توقعات اور ٹاسک کی گٹھری سے نکلنے والے کام آپ پورے کر رہی ہیں لیکن اگر کسی بھی طرح سے وہ کام پورا نہ ہو یا اس میں کوئی رکاوٹ آجائے تو اس کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔
اسی طرح سے انکار نہ کرنے کا رویہ محض اس لیے کہ اس سے لوگ ناراض ہو جائیں گے تو آپ اپنی ذات کی نفی کرتے جائیں درست نہیں۔ والدین اور خاندان کے ماضی کے زخم جو نہیں بھر سکے اسے لے کر چلتے رہنا بھی آپ کو اتنا ہی زخمی کر دے گا جتنے یہ آپ کو منتقل کرنے والوں کے ساتھ ہوا ہے۔ اس کے لیے شعور پہلا قدم ہے۔
یہ ایک ایسا چکر ہے جسے روکنا یا ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ پہلے تو یہ سمجھیں کہ یہ رویہ کہاں سے آ رہا ہے اور اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔ اس کے بعد کچھ ایسی حد بندی ضروری ہے جو آپ کو یہ بتا سکے کہ آپ کیا اور کس حد تک کر سکتے ہیں۔
اس کیفیت سے دوچار خواتین کو تھیراپی کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے جس میں انہیں مختلف انداز اور تکنیک سے اس روئیے پر قابو پانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ جس میں (کاگنیٹیو بیہیویئر تھراپی) شامل ہے جس کے ذریعے فرد اپنے منفی خیالات اور عقائد کو پہنچان کرانہیں صحت مندانہ اور مثبت سوچ کے ذریعے تبدیل کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ایسے افراد جن کا بچپن ہی ان سب رویوں کا شکار رہا ہو انہیں (انر چائلڈ ورک) کے ذریعے جس میں کوئی بھی انسان اپنے اندر کے چھوٹے بچے کو کمفرٹ دے کر اس سے ایک نیا تعلق بناتا ہے تاکہ وہ گلٹ ٹرپ سے باہر آ سکے۔
اسی طرح تھراپسٹ اچھی بیٹی سینڈروم کا شکار خواتین کو نیریٹیو تھراپی بھی کرواتے ہیں جس کا مقصد متاثرہ فرد کو یہ بتانا ہے کہ شرمندگی یا پچھتاوا آپ کا حصہ نہیں ایک احساس ہے جسے بدلنے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔ یہ سوچ کہ میری قیمت اور اہمیت تب ہی ہے جب میں سب کو خوش رکھوں اس کہانی کو بدلنے سے زندگی کا رخ اس طرح بھی بدل سکتا ہے کہ میں ایک خیال رکھنے والی بیٹی ہوں مگر مجھے اپنی خوشی اور ضروریات کوپورا کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برسوں سے چلنے والا یہ سینڈروم اور جنریشنل ٹراما اچانک ختم نہیں ہو گا اس کے لیے وقت درکار ہے۔ لیکن اس سے نکلنا اس لیے ضروری ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد آپ میں یہ سب منتقل کرنے والے جب نہیں رہیں گے تب آپ اپنے سے منسلک اور جڑے رشتوں کے ساتھ بالکل وہی کر رہی ہوں گی جو آپ کے ساتھ ہوا ہے۔
اس لیے اس چکر کو کہیں سے تو توڑنا ہو گا جس کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آپ دوسروں کے لیے نہیں خود اپنے لیے کتنی اہم ہے آپ کو اپنی کتنی ضرروت ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ سب کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے ساتھ ایسی زیادتیاں کیے چلی جا رہی ہوں جن کی معافی نہیں۔ اس لیے خود کو معاف کیجیے، آگے بڑھیے اور خود سے پوچھیے کہ آپ کیا چاہتی ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

<p>توقعات اور ٹاسک کی گٹھری سے نکلنے والے کام آپ پورے کر رہی ہیں لیکن اگر کسی بھی طرح سے وہ کام پورا نہ ہو یا اس میں کوئی رکاوٹ آجائے تو اس کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی (انواتو ایلیمنٹس)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/Si3yHNl