صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم اور باجوڑ کی پولیس نے ہفتے کی شب بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے مابین دو سرحدی مقامات پر جھڑپیں جاری ہیں لیکن فی الحال نقصانات کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔
ضلع اپر کرم کے علاقے پاڑاچنار میں پولیس کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ ہفتے کی رات سرحد پر جھڑپیں جاری ہیں۔
کرم کے ساتھ افغانستان کے تین صوبوں پکتیا، خوست اور ننگرہار کی سرحد ملتی ہے۔
اسی طرح ضلع باجوڑ کے ایک پولیس اہلکار نے تصدیق کی کہ غاخی پاس نامی سرحد پر بھی جھڑپیں جاری ہیں۔ باجوڑ کے ساتھ افغان صوبہ کنڑ کی حدود ہیں۔
باجوڑ میں پولیس اہلکار کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی جاری ہے اور نقصانات کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔
افغانستان کے مقامی میڈیا طلوع نیوز نے افغانستان کی خالد بن ولید فورس کے ایک بیان کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان نے پاکستان سے ’بدلہ لینے کے لیے حملہ کیا ہے۔‘
طلوع نیوز کے مطابق افغانستان کی سکیورٹی فورسزکا کہنا ہے کہ پاکستان نے جمعرات کو افغانستان میں فضائی کارروائی کی تھی جس کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔
طالبان حکومت نے جمعے کو پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے کابل اور پکتیکا میں ایک مارکیٹ پر بمباری کی۔
جمعرات کی رات مقامی وقت کے مطابق 10 بجے سے کچھ پہلے کابل کے عبد الحق سکوائر کے علاقے میں دھماکہ ہوا تھا۔
طالبان حکومت کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس وقت کہا تھا کہ کسی جانی نقصان یا تباہی کی اطلاع نہیں ملی۔ انہوں نے اس دھماکے کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقات جاری ہیں۔
تاہم افغان وزارت دفاع نے گذشتہ روز کہا کہ پاکستان اس حملے کے علاوہ مشرقی صوبے پکتیکا میں ہونے والے ایک اور حملے کا بھی ذمہ دار ہے۔
حکومت پاکستان نے ان حملوں کے حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔
گذشتہ روز پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹنںنٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے جب ایک پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ کیا فوج نے کالعدم پاکستانی طالبان کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا ہے؟ تو انہوں نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا۔
البتہ انہوں نے کہا ’افغانستان کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے اڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اور اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستان کے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں، وہ کیے جائیں گے اور کرتے رہیں گے۔‘
اسی طرح گذشتہ روز پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایکس پر لکھا تھا کہ ’اگر افغان سر زمین سے عسکریت پسند پاکستان میں آ کر خون بہائیں اور پاکستان کو اس خون کا حساب لینے کے لیے اگر افغان سرزمین میں داخل ہونا پڑے تو یہ ہمارا حق ہے۔ ‘
انڈیا کے دورے پر موجودہ افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے جمعے کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے دور دراز علاقوں پر کچھ حملے ہوئے ہیں۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اسے پاکستان کی غلطی سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ایک بار انگریز سے پوچھیں، پھر سوویت یونین سے پوچھیں، پھر امریکہ سے پوچھیں، پھر نیٹو سے پوچھیں، تاکہ آپ کو تھوڑا سا سمجھائیں کہ افغانستان کے ساتھ ایسا کھیل کرنا اچھا نہیں ہے۔‘
پاکستان کے دفتر خارجہ نے آج ایک بیان میں افغان وزیر خارجہ کے اس بیان کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بارہا افغان سرزمین سے پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور سرگرمیوں کے شواہد پیش کر چکا ہے۔
’پاکستان اپنی عوام کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات جاری رکھے گا اور توقع کرتا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کے استعمال سے روکے گی۔‘
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ’پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے تجارتی و اقتصادی تعاون جاری رکھا جائے گا۔‘
پاکستان نے اپنے بیان میں انڈیا اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے اور افغان نگران وزیر خارجہ کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے افغان سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا۔
دفتر خارجہ نے انڈیا اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے کے بعض نکات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اضافی سیکریٹری (ویسٹ ایشیا و افغانستان) نے افغان سفیر کو طلب کر کے پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ ہیں اور اس کی وجہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق پاکستان ماضی میں افغان سرزمین پر ایسے حملے کر چکا ہے جن میں اس کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے ٹھکانے اور تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں زیادہ تر کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے۔

<p>غاخی اور ننگرہار میں افغان فورسز کی جانب سے جھڑپ جاری ہے (افغانستان بارڈر فورس )</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/JmOXPNL