انسان کو چاند پر بھیجنے کی دوڑ ایک بار پھر زور و شور سے جاری ہے۔
چاند پر کھڑے نیل آرمسٹرانگ نے پاچ دہائیاں قبل اپنے قدم کو انسان کے لیے ایک چھوٹا لیکن بنی نوع انسان کے لیے ایک بہت بڑی چھلانگ قرار دیا، لیکن اب کئی ممالک دوبارہ یہ چھلانگ قدرے مستقل بنیاد پر لگانے کے بارے میں کوششیں کر رہے ہیں۔
سپیس ایکس کے سٹارشپ راکٹ نے گذشتہ پیر کو ٹیکساس میں اڑان بھری، جو ناسا کے انسان کو چاند پر دوبارہ بھیجنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ ناسا دنیا کے اسی سب سے طاقتور راکٹ کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسری جانب چین بھی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ 2030 سے پہلے چاند پر انسان بھیج سکے۔ چین کے تحقیقاتی پروگرام میں خلائی جہاز، قمری لینڈرز، خلائی سوٹس اور روورز کی تیاریاں جاری ہیں۔
چین نے حال ہی میں اپنے مون لینڈر نظام کا تجربہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لانچ سائٹس اور تجرباتی مراکز جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس کا مقصد ایسے خلانوردوں کو چاند کی سطح پر اتارنا ہے جو وہاں روورز چلا کر تحقیق کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ، چین روس کے ساتھ بین الاقوامی قمری تحقیقاتی سٹیشن پر تعاون کر رہا ہے، جس کا ہدف 2035 کے آس پاس چاند پر ایک بنیادی مرکز قائم کرنا ہے۔
ناسا کا مشن چار خلابازوں کو 10 روزہ مہم پر لے جائے گا تاکہ اہم نظاموں کی جانچ کی جا سکے اور مستقبل میں چاند پر اترنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ آرٹیمس ٹو 2022 میں آرٹیمس ون کے بغیر عملے کے کامیاب مشن کو، جس نے چاند کے گرد چکر لگایا اور بحفاظت زمین پر واپس آیا، آگے بڑھائے گا۔
اس کے بعد آرٹیمس تھری مشن کا مقصد 2027 کے وسط تک چاند کی سطح پر پہلی خاتون اور غیرسفید فارم شخص کو اتارنا ہے۔
چاند پر کمند ڈالنے میں دلچسپی رکھنے والا تیسرا ملک روس ہے، لیکن اس نے فی الحال اس بارے میں کسی بڑے فیصلے کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے اب پہلے کی نسبت زیادہ اہداف ہیں، جن میں چاند پر مستقل انسانی موجودگی قائم کرنا اور مریخ پر عملے کے مشن کی تیاری کرنا بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ناسا ایکسپلوریشن سسٹمز ڈویلپمنٹ مشن ڈائریکٹوریٹ کی قائم مقام ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر لوری گلیز کہتی ہیں کہ ’ہم واقعی نہ صرف چاند پر ناسا کی مستقل موجودگی کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں، بلکہ ایک معیشت پیدا کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں اور اس طرح ہم چاند پر تجارتی سرگرمیاں جاری دیکھ سکتے ہیں، جس میں دوسری کمپنیاں معمول کی بنیاد پر شرکت کرتی ہیں۔‘
ناسا امید کرتا ہے کہ اس سارے تجربے اور ٹیکنالوجی کو وہ مریخ پر جانے کے لیے استعمال کرے گا۔
ڈاکٹر لوری گلیز مزید کہتی ہیں: ’عظیم چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جو ہم آرٹیمس کے حجم کے پروگرام کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ملک بھر میں سپلائرز ہیں، لہذا ہم ملازمتیں پیدا کر رہے ہیں اور ہر ڈالر کے بدلے جو ہم اس ہارڈ ویئر پر خرچ کرتے ہیں، تین ڈالر امریکی خزانے میں واپس آتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ہمارے ملک میں ایک ناقابلِ یقین سرمایہ کاری ہے کہ ہم ان حیرت انگیز خلائی جہازوں کی تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انٹرلون کے شریک بانی اور سی ای او روب میئرسن کہتے ہیں کہ وہ اگلے پانچ سے سات سالوں میں یعنی 2030 کی دہائی کے اوائل میں چاند پر جا کر ہیلیم -3 حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اسے گیس کے طور پر پیک کریں، زمین پر واپس لائیں اور اسے کوانٹم کمپیوٹنگ اور دیگر شعبوں میں تجارتی صارفین کو فروخت کریں۔ ہیلیم-3 بیس ملین ڈالر فی کلوگرام میں فروخت ہوتی ہے۔
ناسا کے مطابق ہیلیم-3 ہیلیم کا ایک آئسوٹوپ ہے، جس کے زمین پر مختلف استعمال ہیں، جن میں کوانٹم کمپیوٹنگ اور بجلی کی پیداوار کے لیے نیوکلیئر فیوژن ری ایکٹر میں ایندھن کے ذریعے کے طور پر استعمال شامل ہے۔
تاہم چاند پر واپس جانے اور وہاں کے وسائل کے استعمال کے یہ منصوبے کئی اخلاقی سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔
مانچسٹر یونیورسٹی میں سوشل انتھروپولوجی کے لیکچرر ڈاکٹر ڈیوڈ جیوینڈرمپیلائی نے کہا: ’اپولو سے لے کر آرٹیمس پروگرام تک یہ سوالات موجود ہیں کہ چاند کا مالک کون ہے؟ چاند پر جانے کا حق کس کا ہے؟ اور جب آپ چاند پر نظر آنے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شروع کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟‘

<p class="rteright">امریکہ اور چین کے علاوہ چاند پر کمند ڈالنے میں دلچسپی رکھنے والا تیسرا ملک روس ہے (ناسا)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/80Rmynv