غزہ پلان: ٹرمپ نے وہ کیسے کر دکھایا جو بائیڈن نہ کر سکے؟

News Inside

آج اگر آپ کوسوو جائیں تو وہاں 20، 25 سال کے بہت سے نوجوان مردوں کے نام ٹونی بلیئر  ہوں گے۔ یہ کوئی روایتی سلاوی نام نہیں، بلکہ 1999 میں یوگوسلاوی رہنما سلوبودان میلوسووچ کے خلاف جنگ میں ٹونی بلیئر کے کلیدی کردار کے بعد ایک نئی نسل نے اپنے بچوں کو اسی نام سے پکارنا شروع کیا۔

مجھے یقین ہے کہ ایک شخص اس صورت حال پر سب سے زیادہ خوشی محسوس کرے گا اور انصاف کی بات بھی یہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ ان کی غیر روایتی سفارت کاری، مضبوط شخصیت اور بن یامین نتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت نے ہمیں آج کے اس مقام تک پہنچایا ہے۔

اور بجا طور پر ٹرمپ اس وقت خود کو امن کے معمار اور غیر معمولی سفارتکار کے بیانیے میں سرشار محسوس کر رہے ہیں۔ انہیں اس لمحے سے لطف اندوز ہونا بھی چاہیے لیکن سیاست میں وقت کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ اس معاہدے کو دیکھیں جس پر ٹرمپ نے اسرائیل کو دستخط پر مجبور کیا، تو یہ تقریباً وہی ہے جو جو بائیڈن نے ایک سال پہلے پیش کیا تھا۔

ٹرمپ کامیاب ہوئے اور بائیڈن ناکام، صرف شخصیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ وقت کے فرق کی وجہ سے بھی۔ ایک سال پہلے نتن یاہو کو لگا کہ انہیں کسی معاہدے کی ضرورت نہیں لیکن فلسطینیوں کو بھوکا رکھ کر جھکانے کی بھونڈی کوششوں اور قطر میں حماس کے دفتر پر احمقانہ میزائل حملے کے بعد اسرائیل خود کو عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ تنہا محسوس کر رہا تھا۔ یہی وہ موقع تھا جسے ٹرمپ نے استعمال کیا، وہ دباؤ جو شاید صرف وہ ہی ڈال سکتے تھے۔

میں تقریباً 15 سال پہلے میں اسرائیل گیا تھا جہاں میں نے ٹونی بلیئر کا انٹرویو کیا۔ وہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے قائم ’کوارٹیٹ‘ کے نمائندے تھے۔ ہم دونوں نے مغربی کنارے کا دورہ کیا۔ بلیئر کا کہنا تھا کہ دو ریاستی حل ممکن ہے۔ سب جانتے تھے کہ معاہدہ کیسا ہو سکتا ہے، مسئلہ صرف یہ تھا کہ دونوں فریق خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھے۔

نتن یاہو ظاہراً دو ریاستی حل کی بات کرتے رہے، مگر پس پردہ انہوں نے ہر قدم پر اسے ناکام بنایا۔ ماضی میں بل کلنٹن کو لگا تھا کہ انہوں نے امن کا معاہدہ حاصل کر لیا ہے، مگر فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے پیچھے ہٹ گئے کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ وہ اپنی عوام کو راضی نہیں پائیں گے۔

شمالی آئرلینڈ کو دیکھیں، جہاں ٹونی بلیئر نے گڈ فرائیڈے معاہدے کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک طویل، مشکل اور نازک عمل تھا، یہاں بھی کچھ نکات مبہم رکھے گئے، جیسے آئرش ریپبلکن آرمی کے ہتھیاروں کا تلف کرنا لیکن سب فریقوں میں خواہش تھی کہ کوشش کی جائے۔ یہاں بھی جب تمام حالات سازگار ہو گئے جس نے امن ممکن بنایا۔

اب یہیں سے اصل نکتہ شروع ہوتا ہے۔ آج جو قیدی رہا کیے گئے ہیں، یہ اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔ سوالوں کا انبار باقی ہے جیسے کیا حماس اپنے ہتھیار ڈالے گا؟ کیا اسرائیل غزہ کی سکیورٹی کسی تکنیکی یا غیر سیاسی انتظامیہ کے حوالے کرے گا؟ ان ٹیکنوکریٹس کو کون مقرر کرے گا؟ جنگجوؤں کو اقتدار باہر کیسے رکھا جائے گا؟ تباہ حال پٹی کی تعمیر نو کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ کتنے عرصے میں؟ کتنی قیمت پر؟ یاد رہے، امن منصوبہ بیس نکات پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1998  کے شمالی آئرلینڈ کے تاریخی واقعات کو یاد کریں، گڈ فرائیڈے معاہدے پر دستخط صرف پہلا قدم تھا۔ پولیس کا نظام بدلنا پڑا، ہتھیار جمع کرنے پڑے، سیاسی قیدی رہا کرنا پڑے اور پاور شیئرنگ کا عمل شروع ہوا۔ آج 27 سال بعد بھی کشیدگیاں باقی ہیں، مگر امن بڑی حد تک برقرار ہے کیونکہ سیاست دان مسلسل کام کرتے رہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی قوت ارادی اور امن لانے کی کوششوں پر کوئی شک نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اتنی سیاسی توجہ اور صبر ہے کہ وہ اس 20 نکاتی منصوبے کو حقیقت کا روپ دے سکیں؟ کیا وہ واقعی اس ’ہمیشہ قائم رہنے والے امن‘ کو یقینی بنا سکیں گے جس کا وعدہ وہ کر چکے ہیں؟

صدر ٹرمپ کسی معاملے پر غیر معمولی شدت کے ساتھ فوکس کر سکتے ہیں مگر اتنی ہی جلدی اس سے اکتا بھی جاتے ہیں۔ ان کی صدارت نے سب کو ’توجہ کی کمی‘ کے ایک اجتماعی عارضے میں مبتلا کر رکھا ہے، ایک دن ایک مسئلہ سر فہرست ہوتا ہے، اگلے دن دوسرا۔

بلا شبہ یہ امن کے لیے سب سے بہترین موقع ہے اور اس مقام تک پہنچنے پر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو دل سے سراہتا ہوں۔ لیکن اب اصل امتحان شروع ہوتا ہے، وہ کام جو شاید سرخیاں نہیں بنائے گا مگر اصل بنیاد رکھے گا۔ اور ٹرمپ کے بارے میں سب جانتے ہیں وہ سرخیوں کے عاشق ہیں۔

امید ہے میں غلط ثابت ہوں۔ تمام سیاست دان اپنی میراث کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی دنیا کو ایک پائیدار، منصفانہ اور دیرپا امن دے جاتے ہیں تو پھر انہیں نوبیل امن انعام ضرور دیا جائے، ایسا انعام جو سب سے بڑا، سب سے چمکدار اور سب سے خوبصورت 24 قیراط سونے کا تمغہ ہو، جیسا ناروے نے پہلے کبھی نہ بنایا ہو کیونکہ وہ واقعی اس کے حقدار ہوں گے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

غزہ میں بھوک اور قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کی عالمی تنہائی نے ٹرمپ کو موقع دیا، جسے انہوں نے دباؤ ڈال کر غزہ امن معاہدے میں کامیابی میں بدل دیا۔
منگل, اکتوبر 14, 2025 - 06:45
Main image: 

<p>امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 13 اکتوبر، 2025 کو شرم الشیخ میں غزہ سے متعلق سربراہی اجلاس کے دوران دستخط شدہ دستاویز دکھا رہے ہیں (اے ایف پی)</p>

type: 
SEO Title: 
غزہ پلان: ٹرمپ نے وہ کیسے کر دکھایا جو بائیڈن نہ کر سکے؟
Translator name: 
عبدالقیوم


from Independent Urdu https://ift.tt/uRqW1pB

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !
&lt;div class=&#039;sticky-ads&#039; id=&#039;sticky-ads&#039;&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-close&#039; onclick=&#039;document.getElementById(&amp;quot;sticky-ads&amp;quot;).style.display=&amp;quot;none&amp;quot;&#039;&gt;&lt;svg viewBox=&#039;0 0 512 512&#039; xmlns=&#039;http://www.w3.org/2000/svg&#039;&gt;&lt;path d=&#039;M278.6 256l68.2-68.2c6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0L256 233.4l-68.2-68.2c-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3l68.2 68.2-68.2 68.2c-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3 6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0l68.2-68.2 68.2 68.2c6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0 6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6L278.6 256z&#039;/&gt;&lt;/svg&gt;&lt;/div&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-content&#039;&gt; &lt;script type=&quot;text/javascript&quot;&gt; atOptions = { &#039;key&#039; : &#039;9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75&#039;, &#039;format&#039; : &#039;iframe&#039;, &#039;height&#039; : 90, &#039;width&#039; : 728, &#039;params&#039; : {} }; document.write(&#039;&lt;scr&#039; + &#039;ipt type=&quot;text/javascript&quot; src=&quot;http&#039; + (location.protocol === &#039;https:&#039; ? &#039;s&#039; : &#039;&#039;) + &#039;://www.profitablecreativeformat.com/9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75/invoke.js&quot;&gt;&lt;/scr&#039; + &#039;ipt&gt;&#039;); &lt;/script&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt;