ترکستان اسلامک پارٹی: چین کے لیے شام اور افغانستان میں چیلنج

News Inside

ہیئت تحریر الشام کی جانب سے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے ایک ہفتہ قبل ترکستان اسلامک پارٹی (جو ’مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے) کے سربراہ عبدالحق ترکستانی نے خبردار کیا تھا کہ ’چینی کافر جلد ہی وہی انجام چکھیں گے جو شام میں کافروں نے چکھا ہے۔‘

جب احمد الشرع کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے صرف 11 دنوں کی حیران کن جارحیت کے بعد دمشق پر قبضہ کیا تو اس کے ساتھ اویغور، وسطی ایشیائی اور قفقازی غیر ملکی عسکریت پسند بھی شامل تھے۔

ان جنگجوؤں نے اسد حکومت کے خلاف ہیئت تحریر الشام کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تقریباً 1,100 اویغور جنگجو ہیئت تحریر الشام کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

اویغور، جو چینی مسلمان نسلی اقلیت ہیں،13-2012 میں ترکی اور جنوب مشرقی ایشیا کے راستے شام پہنچے اور ہیئت تحریر الشام کے زیرِ انتظام ادلب صوبے میں آباد ہوگئے۔ مجموعی طور پر تقریباً 15,000 اویغور شام میں مقیم ہیں، جن میں سے 3,500 جنگجو حال ہی میں شامی فوج کے 84ویں ڈویژن میں شامل کیے گئے ہیں، جس سے چین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بیجنگ نے شام میں اویغوروں کی موجودگی اور ان کی فوج میں شمولیت پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے اویغور عسکریت پسندوں کے خلاف عالمی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

جنگ کے تجربہ کار اویغور جنگجو دمشق سے آگے کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی لڑائی کے تجربے کو چین کے خلاف استعمال کرکے سنکیانگ کو الگ کرنا اور ہیئت تحریر الشام یا طالبان طرز کی شریعت پر مبنی ریاست ’مشرقی ترکستان‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

چین کے سلامتی تجزیے میں، شام میں موجود اویغور عسکریت پسند اپنے وطن لوٹ کر علیحدگی کی تحریک دوبارہ شروع کرنے کے موقع کے منتظر ہیں۔

اسد حکومت کے خاتمے اور اویغور جنگجوؤں کے شامی فوج میں شامل ہونے، جن میں سے نصف درجن کو بریگیڈیئر جنرل جیسے اعلیٰ عہدے دیے گئے ہیں، نے چین کے لیے دوہرا دھچکا پیدا کیا۔

ایک طرف چین نے اپنے قریبی اتحادی اسد کو کھو دیا، جو شام میں اویغور جنگجوؤں کی سرگرمیوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے تھے اور چین کی سفارتی حمایت کے بدلے ان کے خلاف کارروائی کرتے تھے۔ 2011 سے اب تک چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے ساتھ مل کر اسد کے حق میں 14 میں سے 8 ویٹو استعمال کیے۔

دوسری طرف اسد کے بعد شام میں قائم ہونے والا نیا نظام، اگرچہ اسے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی اور مالی مدد حاصل ہے، ابھی تک غیر مستحکم ہے۔ سب سے بڑھ کر، وہی اویغور عسکریت پسند جنہیں چین ختم کرنا چاہتا تھا، اب شامی فوج میں شامل ہو کر ریاستی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

اسی دوران، داعش شام کے غیر منظم علاقوں میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ اس نے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے شام میں دو دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں ایک شامی سرکاری افواج پر بھی شامل ہے۔

یہ صورت حال بیجنگ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اویغور عسکریت پسند سنکیانگ واپس آ کر یا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے راستوں پر، جو پاکستان، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ جیسے غیر مستحکم علاقوں سے گزرتے ہیں، حملے کر سکتے ہیں۔

ترکستان اسلامک پارٹی کے عسکریت پسندوں کے لیے شام میں لڑائی دراصل چین کے خلاف مستقبل کی جنگ کی تیاری کا ذریعہ تھی۔

اگرچہ عبدالعزیز داؤد خدایبردی المعروف ’زاہد‘ ترکستان اسلامک پارٹی کا شام میں کمانڈر ہے، لیکن اویغور جنگجو اب بھی تنظیم کے مجموعی سربراہ عبدالحق ترکستانی کے احکامات کے پابند ہیں، جو افغانستان میں مقیم ہیں۔ ان کے طالبان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت انصاراللہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں ترکستان اسلامک پارٹی کے جنگجوؤں کی تعداد 500 سے زیادہ نہیں اور طالبان نے ان پر سخت کنٹرول قائم کیا ہوا ہے۔ تاہم اگر شام سے بڑی تعداد میں جنگجو عبدالحق ترکستانی کے حکم پر افغانستان پہنچنے لگیں تو ان کی تعداد تیزی سے بڑھ سکتی ہے تاکہ وہ سنکیانگ کے خلاف اگلی کارروائی کی تیاری کر سکیں۔

اطلاعات کے مطابق، کچھ ترکستان اسلامک پارٹی کے جنگجو وسطی ایشیائی دہشت گردوں کے ساتھ شام سے افغانستان کی وادی پنجشیر میں منتقل ہو چکے ہیں، جو ازبکستان اور تاجکستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔

افغانستان میں ترکستان اسلامک پارٹی اپنے اڈے اور تربیتی مراکز ان دہشت گرد گروہوں کے ساتھ بلخ، بدخشاں، قندوز، کابل اور بغلان صوبوں میں شیئر کرتی ہے۔

طالبان نے ترکستان اسلامک پارٹی کے جنگجوؤں کو شمالی افغانستان میں داعش خراسان کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیا ہے، کیونکہ داعش خراسان طالبان کے مخالف نظریات رکھنے والے گروہوں کے ارکان کو اپنی صفوں میں شامل کرکے وسطی ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ داعش خراسان ’اویغور ٹیم‘ کے نام سے ترکستان اسلامک پارٹی کے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اگر طالبان نے ترکستان اسلامک پارٹی پر اپنا کنٹرول کم کیا تو تنظیم کے ناراض ارکان داعش خراسان میں شامل ہو سکتے ہیں، جو چین مخالف پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اویغور جنگجوؤں کی توجہ حاصل کر سکے۔

ترکستان اسلامک پارٹی کی جانب سے سنکیانگ میں دراندازی یا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے راستوں پر پرتشدد کارروائیوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے، چین کا ہیئت تحریر الشام کی زیرِ قیادت عبوری حکومت سے رویہ تقریباً وہی ہے جو اس نے افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ اختیار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین نے طالبان کے ساتھ قریبی سفارتی و اقتصادی تعلقات قائم کیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان سے دہشت گردی سنکیانگ میں داخل نہ ہو۔ تاہم، چین نے طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح، بیجنگ احتیاط سے ہیئت تحریر الشام حکومت سے رابطے میں ہے تاکہ اسے قائل کیا جا سکے کہ وہ اویغور کمانڈروں کو فوجی عہدوں پر استعمال نہ کرے۔

ترکستان اسلامک پارٹی کے خلاف انسدادِ دہشت گردی چین کی شام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔ سفارتی سطح پر چین نے اقوام متحدہ میں ہیئت تحریر الشام سے وابستہ رہنماؤں کو فہرست سے نکالنے کی کوششوں کو روکا ہے اور اپنے مکمل تعلقات کو اس شرط سے مشروط کیا ہے کہ اویغور عسکریت پسندوں کے خلاف یقین دہانی کروائی جائے۔

جون میں، شامی وزارتِ دفاع نے چین کے تحفظات کے جواب میں ترکستان اسلامک پارٹی کو تحلیل کرنے پر مجبور کیا۔ تاہم شفاف اور قابلِ اعتبار نگرانی کے نظام کی غیر موجودگی میں اس فیصلے پر عملدرآمد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ چین کو مزید مطمئن کرنے کے لیے شامی صدر محمد الشرع نے بیان دیا کہ ’میں ان (اویغوروں) سے ہمدردی رکھتا ہوں، مگر ان کی چین کے خلاف جدوجہد ہماری نہیں ہے۔‘

ان دونوں اقدامات سے قبل مارچ میں ترکستان اسلامک پارٹی نے اپنا نیا چارٹر جاری کیا، جس میں اس نے اپنا پرانا نام ’مشرقی اسلامک پارٹی‘ دوبارہ اختیار کیا۔

اس نئے چارٹر میں قومی نوعیت کا لہجہ اپنایا گیا ہے، جس کا مرکز سنکیانگ ہے۔ ترکستان ایک سبق ہے جو ترکستان اسلامک پارٹی نے طالبان اور ہیئت تحریر الشام کے کامیاب ماڈلز سے سیکھا ہے۔ اس میں چین پر زور دیا گیا ہے جبکہ عالمی جہادی مسائل کو پسِ پشت ڈالا گیا ہے۔

مصنف ایس راجاراتنام اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے،  انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جنگ کے تجربہ کار اویغور جنگجو دمشق سے آگے کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی لڑائی کے تجربے کو چین کے خلاف استعمال کرکے سنکیانگ کو الگ کرنا اور ہیئت تحریر الشام یا طالبان طرز کی شریعت پر مبنی ریاست ’مشرقی ترکستان‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
جمعرات, اکتوبر 30, 2025 - 06:30
Main image: 

<p class="rteright">ہانگ کانگ میں 22 دسمبر 2019 کو چین میں ایغور اقلیت کی حمایت کے لیے ایک ریلی کے بعد پولیس مظاہرین کو منتشر کر رہی ہے (ڈیل ڈی لا ری / اے ایف پی)</p>

type: 
SEO Title: 
ترکستان اسلامک پارٹی: چین کے لیے شام اور افغانستان میں چیلنج


from Independent Urdu https://ift.tt/0rlACeZ

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !
&lt;div class=&#039;sticky-ads&#039; id=&#039;sticky-ads&#039;&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-close&#039; onclick=&#039;document.getElementById(&amp;quot;sticky-ads&amp;quot;).style.display=&amp;quot;none&amp;quot;&#039;&gt;&lt;svg viewBox=&#039;0 0 512 512&#039; xmlns=&#039;http://www.w3.org/2000/svg&#039;&gt;&lt;path d=&#039;M278.6 256l68.2-68.2c6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0L256 233.4l-68.2-68.2c-6.2-6.2-16.4-6.2-22.6 0-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3l68.2 68.2-68.2 68.2c-3.1 3.1-4.7 7.2-4.7 11.3 0 4.1 1.6 8.2 4.7 11.3 6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0l68.2-68.2 68.2 68.2c6.2 6.2 16.4 6.2 22.6 0 6.2-6.2 6.2-16.4 0-22.6L278.6 256z&#039;/&gt;&lt;/svg&gt;&lt;/div&gt; &lt;div class=&#039;sticky-ads-content&#039;&gt; &lt;script type=&quot;text/javascript&quot;&gt; atOptions = { &#039;key&#039; : &#039;9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75&#039;, &#039;format&#039; : &#039;iframe&#039;, &#039;height&#039; : 90, &#039;width&#039; : 728, &#039;params&#039; : {} }; document.write(&#039;&lt;scr&#039; + &#039;ipt type=&quot;text/javascript&quot; src=&quot;http&#039; + (location.protocol === &#039;https:&#039; ? &#039;s&#039; : &#039;&#039;) + &#039;://www.profitablecreativeformat.com/9325ac39d2799ec27e0ea44f8778ce75/invoke.js&quot;&gt;&lt;/scr&#039; + &#039;ipt&gt;&#039;); &lt;/script&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt; &lt;/div&gt;