پاکستان میں زرخیز مٹی نمکیات کی زیادتی، زمین کے کٹاؤ، نامیاتی مادے کی کمی اور کیمیاوی دباؤ کی وجہ سے بے جان ہو چکی ہے۔ ماہرین نے مسئلے کا حل ریجنریٹیو ایگریکلچر، صحت مند مائیکرو بائیولوجی اور قدرتی کھاد پر مبنی متبادل ذرائع کو قرار دیا ہے تاکہ مٹی، پانی اور زندگی ایک ساتھ سنبھل پائیں۔
ساپن نیوز نیٹ ورک کے مطابق اس ضمن میں مٹی کی صحت کے عنوان سے 22 سے 27 ستمبر 2025 کے دوران کراچی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے نتائج نے اس کے منتظمین کو اگلے سال اسے قومی سطح کے سالانہ ایونٹ میں بدلنے کا حوصلہ دے دیا اور سائل ہیلتھ ویک ایک ایونٹ سے بڑھ کر رخ موڑنے والا لمحہ بن گیا۔
اس موقعے پر بال، جانوروں کی فر اور اون جیسے بظاہر فضلے کو قیمتی نامیاتی سرمائے میں بدل کر سستے، مقامی اور بار بار دہرائے جا سکنے والے طریقہ کار سامنے آئے جنہیں کسانوں، ماہرین، طلبہ اور عوام سب نے مؤثر پایا۔
اس تقریب میں سندھ اور پنجاب کے کسانوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر ہونے والی گفتگو ان کو قابل عمل راستہ دیا، توانائی بخشی اور ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں وہ مل بیٹھ کر اپنے مسائل اور حل پر بات کر سکیں۔
تقریب میں قدرتی کھاد کے ماہر نک پیڈوک نے بھی شرکت کی جنہیں ’کنگ آف کمپوسٹ‘ کہا جاتا ہے اور ان کی کمپنی وائلڈ سوئلز سینڈرنگھم اسٹیٹ کے لیے کھاد تیار کرتی ہے۔ انہوں نے مارچ 2025 میں پانچ سالہ منصوبہ شروع ہوا جس میں بال، فر اور اون کو کھاد میں شامل کرنے کے اثرات جانچے جا رہے ہیں۔
مئی میں نورفوک کے کھیتوں میں ابتدائی مشاہدات نے چونکا دیا۔ بالوں نے مٹی کی نمی برقرار رکھنے اور گرمی سے بچنے میں غیر معمولی مدد فراہم کی۔
بال، مٹی کے لیے
فرانسسکو کی غیر منافع بخش تنظیم ’میٹر آف ٹرسٹ‘ 1980 کی دہائی سے وہ بیوٹی سالونز سے بال جمع کر رہی ہے۔ کٹے ہوئے بال ایسا فضلہ ہے جو کوڑے میں چلا جاتا ہے۔
حقیقت میں انسانی اور پالتو جانوروں کے بال ایک کراماتی مواد ہے جو پانی سے آلودگی دور کرتا ہے، سیلاب میں مدد دیتا ہے، کھاد کا کام دیتا ہے اور صاف ستھری زراعت کے لیے کیڑوں کو بھگاتا ہے۔ اب ہم اس کی صلاحیت دریافت کر رہے ہیں کہ بال زمین سے مائیکرو پلاسٹکس کم کرنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
پاکستان، جہاں سندھ کے کسان سیلاب، شدید گرمی اور منفی موسمیاتی اتار چڑھاؤ کے ساتھ کیمیکلز کے زیادہ استعمال کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نک پیڈوک کی پاکستان آمد کے بعد ایک ہفتے کے دوران کراچی، ٹنڈو جام اور حیدرآباد کے قریب رہوکی فارمز میں سیمینارز، فیلڈ ڈیموز، مٹی کے ٹیسٹ ورکشاپس اور پالیسی ڈائیلاگ ہوئے۔ ان کے ساتھ ہونے والی نشست کسانوں نے بھرپور شرکت ہوئی۔ سندھ کے کاشت کاروں کی گفتگو سن کر پنجاب کے کسان بھی جڑ گئے اور فوراً ویڈیو کانفرنس رکھی گئی۔
کسانوں نے بتایا کہ موسم کی بے یقینی، کیمیکل کھاد اورکیڑے مار ادویات کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود اثر کم ہو رہا ہے۔ سندھ کے کاشتکار علی کچھیلو کے مطابق نائٹروجن، ڈی اے پی اور ڈیزل جیسے بنیادی اخراجات پانچ برس میں تقریباً دگنے جب کہ پیداوار کی قیمتیں صرف 10 سے 15 فیصد بڑھی ہے۔ منافع دباؤ میں ہے اور موسم کی آفت پوری فصل تباہ کر دیتی ہے۔ ایک کسان اپنی روداد سناتے ہوئے رو پڑا تو سمجھ آیا یہ صرف تکنیک نہیں، زندگی اور عزت کا مسئلہ ہے۔
مٹی کی صحت کے حوالے سے گرمیوں کی تیزی سے بڑھتی مٹی کی صحت کے ہفتے کی پذیرائی اسے تحریک بناتی جا رہی ہے۔ اگلا سنگ میل دسمبر 2026 میں طے شدہ ایک بڑی تقریب ہے جس میں تمام متعلقہ فریق شرکت کریں گے۔
<p class="rteright">صحت مند مٹی پھلتے پھولتے پودوں کو سہارا دیتی ہے (ساپن نیوز نیٹ ورک)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/wJI5NUG