کراچی سے تعلق رکھنے والے بینڈ ’نقاب پوش‘ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نیا گانا ’قبضہ‘ ریلیز کیا ہے، جو صرف ایک گانا نہیں، بلکہ ایک گہرا جذباتی اور تخلیقی ردِعمل ہے۔ ایک خاموش مگر طاقتور احتجاج، جو فلسطین میں جاری ظلم، جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف پیش کیا گیا ہے۔
’قبضہ‘ دل کو چھو لینے والے بولوں اور مؤثر موسیقی کے ذریعے ایک فنکارانہ مزاحمت کی نمائندگی کرتا ہے۔
نقاب پوش کے فنکاروں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس گانے کے ذریعے دنیا کو حقیقت سے روشناس کروانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا مقصد صرف موسیقی کے ذریعے تفریح فراہم کرنا نہیں، بلکہ ایسے پیغامات دینا ہے جو دلوں میں اتر جائیں، ضمیر کو جھنجھوڑیں اور لوگوں کو ایک بیداری کی طرف لے کر جائیں۔
اگر ہم نا بولیں تو کون بولے گا؟ اگر ہم نظر انداز کریں تو کون انصاف کی آواز اٹھائے گا؟ آرٹسٹ حسن تنویر
کمپوزر اور گلوکار حسن تنویر کا پیغام صاف اور بے باک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم کھڑے نہ ہوں گے تو کون کھڑا ہوگا؟ اسی جذبے نے ہمیں آگے بڑھایا اور اسی جذبے نے ہمیں یہ گانا تخلیق کرنے پر مجبور کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس پروجیکٹ کا نام ’قبضہ‘ اس لیے رکھا کیونکہ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح فلسطین پر ظالمانہ قبضے کے ذریعے ایک پوری قوم کے حقوق چھین لیے گئے۔
’یہ نام ہمارا احتجاج ہے، ان مظلوم آوازوں کا اکٹھا ہونا ہے جنہیں دبایا جا رہا ہے۔ ہم نے میوزک کو اپنا ہتھیار بنایا تاکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جا سکے۔،
حسن کہتے ہیں کہ نقاب پوش بینڈ نے یہ گانا گذشتہ سال اکتوبر میں لکھنا شروع کیا تھا، جب دنیا بھر میں خاص طور پر غزہ میں جو حالات چل رہے تھے، وہ انسانی دل کو ہلا کر رکھ دینے والے تھے۔
’اور ہمارا مقصد صرف ایک گیت بنانا نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کہ موسیقی کے ذریعے لوگوں کی سوچ بدلیں۔ اُن لوگوں کی آواز بنیں جن کی آواز دبائی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’توڑو نا زنجیریں‘ ایک نظریہ ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خاموشی توڑیں اور ظلم کے خلاف بغاوت کریں۔
’یہ مسئلہ صرف غزہ کا نہیں، یہ ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کی، پوری انسانیت کی جنگ ہے۔ ہم نے اپنی آرٹسٹ کمیونٹی کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر ہم نہ بولیں تو کون بولے گا؟ اگر ہم نظر انداز کریں تو کون انصاف کی آواز اٹھائے گا؟‘
یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے: عمار خالد آرٹسٹ
آرٹسٹ عمار خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو گانے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ قبضہ گانے پر محنت کے علاوہ جذبات اور انسانیت کے لیے کھڑا ہونا ہماری اولین ترجیح تھی۔ دو سال کی محنت کے بعد ہم نے یہ گانا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری کیا تاکہ وہ درد، وہ آواز اور وہ پیغام ہر دل تک پہنچے۔‘
انہوں نے بتایا کہ گانا بنانے کے دوران کیسے ان کا ضبط ٹوٹا تھا۔
’ہم نے گانے کے لیے مختلف فلسطینی ذرائع سے ویڈیوز حاصل کیں اور ہر ویڈیو کا درست کریڈٹ دیا۔ جب میں نے ان ویڈیوز میں بچوں، ماؤں، بہنوں پر ہونے والے ظلم، اجڑے گھر، ٹوٹے ہوئے خاندان دیکھے تو ایک پل کے لیے میری عقل ہی انہیں قبول کرنے سے قاصر ہو گئی یہ منظرنامہ انسانی برداشت سے باہر تھا۔ جب میں نے اُن مناظر کو گانے میں ایڈٹ کیا تو میری آنکھیں بھر آئیں؛ ایسی کیفیت پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔‘
آرٹسٹ عمار خالد کا ماننا ہے کہ ’یہ جنگ نہیں کیونکہ جنگ میں کم از کم برابر کی لڑائی کا تقاضا ہوتا ہے یہ نسل کشی ہے۔ یہ اسرائیل کا بزدلانہ چہرہ ہے جس نے معصوم بچوں کو بھی نہ بخشا۔ اس درد کو چھپانا ممکن نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے گانے کے بول پر وضاحت دی ’ٹوٹی ساری دیواریں ہیں، حق کے سامنے باطل ہے، گرجتے کالے بادل ہیں، خون سے کیا حاصل ہے، جنگ کا فاتح ہی قاتل ہے۔‘
گانے میں ان جملوں میں یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ جنگ میں جیتنے والا ہمیشہ ہیرو نہیں ہوتا، بعض اوقات وہی قاتل بن جاتا ہے۔
ہم جیسے آرٹسٹوں کے شور کی اس ملک کو، اس شہر کراچی کو ضرورت ہے: عدیل طاہر آرٹسٹ
عدیل طاہر نے اس گانے میں بیس اور پروڈکشن میں اہم کردار ادا کیا، اور ان کا تخلیقی وژن اس گانے کے پیچھے کی مضبوط ریڑھ کی ہڈی ہے۔
عدیل طاہر نےانڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اپنے جذبات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری موسیقی ایک احتجاج ہے، ایک مؤقف ہے اور ایک مؤثر پیغام ہے جو دنیا کے ہر کان تک پہنچنا چاہیے، چاہے وہ ہمیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا جائے، ہمیں دبانے کی کوشش کی جائے، یا ہمارے خلاف آوازیں اٹھیں ہم اپنا مشن جاری رکھیں گے
’ہم چاہیں تو کمرشل سانگز بنا سکتے ہیں، لیکن ہم نے ہمیشہ ایسے گانے بنائے ہیں جو مسئلے کی جڑ تک پہنچتے ہیں۔ ہماری ترجیحات شہرت یا مارکیٹنگ نہیں مسائل، انسانی درد اور سچائیاں ہیں۔ اگر کوئی مجبور ہے، تو وہ رہے، لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے۔‘
بینڈ کے مرکزی ارکان عمار خالد اور حسن ینویر نے اس گانے کی کمپوزیشن کی ہے، جبکہ بیس اور پروڈکشن کی ذمہ داری عدیل طاہر نے نبھائی ہے۔
نقاب پوش بینڈ ، ایک آواز، ایک مشن
نقاب پوش کا ہر گانا دراصل اس نقاب کو ہٹانے کی کوشش ہے جو معاشرے، طاقت اور منافقانہ نظام نے سچائی پر چڑھا رکھا ہے۔ یہ بینڈ موسیقی کو مزاحمت کی زبان سمجھتا ہے
نقاب پوش بینڈ 2019 سے مسلسل اُن مسائل کو اجاگر کر رہا ہے جنہیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، لیکن جو ہر انسان کی زندگی سے کسی نہ کسی طرح جُڑے ہوتے ہیں۔ یہ بینڈ محض موسیقی نہیں بناتا، بلکہ موسیقی کو بطور احتجاج، بطور مؤقف اور بطور پیغام استعمال کرتا ہے گذشتہ چھ سالوں میں بینڈ نے شہری و سماجی مسائل پر متعدد گانے ریلیز کیے، جن میں خاموش ڈکیت، بھیک، سیٹھ، سانپ اور اُٹھو جیسے ٹائٹل شامل ہیں۔ نقاب پوش کا میوزک صرف تفریح نہیں، بلکہ شعور کی بیداری ہے۔

<p>غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف موسیقی کی شکل میں آواز بلند کرنے والے قبضہ بینڈ کے فنکار (انڈپینڈنٹ اردو)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/5n6RWEF