غزہ کو امداد پہنچانے کی کوشش کرنے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے کارکنوں نے ملک بدری کے بعد ترکی پہنچنے پر ہفتے کو اسرائیلی فورسز پر ماحولیات کے حوالے سے سرگرم سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ سے بدسلوکی کا الزام عائد کیا ہے۔
صمود فلوٹیلا میں شامل کشتیوں کو یکم اکتوبر کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے روکنا شروع کیا اور ان پر موجود کارکنوں میں حراست میں لے لیا گیا تھا، جن میں گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔
اسرائیلی حراست میں موجود فلوٹیلا کے تقریباً 137 کارکنوں کو ہفتے کو ترکی کے شہر استنبول پہنچایا گیا، جن میں سے کم از کم دو نے اسرائیلی اہلکاروں پر گریٹا تھنبرگ کے ساتھ حراست کے دوران بدسلوکی کا الزام لگایا۔
ملائیشیا سے تعلق رکھنے والی فلوٹیلا کی کارکن ہزوانی ہلمی نے کہا کہ گریٹا تھنبرگ کے ساتھ خوفناک سلوک کیا گیا۔
28 سالہ ہزوانی ہلمی نے روئٹرز کو بتایا: ’انہوں نے اسے گھسیٹا، اس کے چہرے پر اسرائیلی پرچم ڈالا، اسے ٹرالی میں ڈالا اور اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا۔‘
امریکی شہری ونڈ فیلڈ بیور نے بھی روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے ایئرپورٹ پر گریٹا تھنبرگ کے ساتھ بدسلوکی ہوتے ہوئے دیکھی۔
’انہیں دھکا دیا گیا اور اسرائیلی پرچم لپیٹنے پر مجبور کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو صاف خوراک یا پانی فراہم نہیں کیا گیا اور ادویات اور سامان ضبط کر لیا گیا تھا۔
43 سالہ امریکی شہری نے بتایا کہ تھنبرگ کے ساتھ ’خوفناک سلوک‘ کیا گیا اور ’پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔‘
اگست 2025 میں شروع ہونے والے 40 کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں پر مشتمل اس قافلے کے سفر میں 44 ممالک کے تقریباً 500 لوگ سوار تھے۔
بحری بیڑہ غزہ کے رہائشیوں کے لیے خوراک اور ادویات پر مشتمل سامان لے جا رہا تھا اور اس کوشش کا مقصد دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو ختم کرنا تھا، جس کی وجہ سے فلسطینی علاقوں میں قحط جیسی صورت حال بن رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل اکتوبر 2023 سے غزہ پر فضائی اور زمینی حملے کر رہا ہے، جس کی وجہ سے وہاں 67 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، جب کہ لاکھوں خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر ایک سے زیادہ مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
ترکی کی وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ استنبول ایئرپورٹ پر اترنے والے کارکنوں میں 36 ترک شہریوں کے علاوہ امریکہ، متحدہ عرب امارات، الجزائر، مراکش، اٹلی، کویت، لیبیا، ملائیشیا، موریطانیہ، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور اردن کے شہری شامل تھے۔
اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کہا کہ 26 اطالوی باشندے ترکش ایئرلائنز کی پرواز پر سوار تھے، جن میں سے 15 اب بھی اسرائیل میں قید ہیں اور انہیں اگلے چند دنوں میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں نے ایک بار پھر تل ابیب میں اطالوی سفارت خانے کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ باقی ہم وطنوں کے ساتھ ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔‘
مشن میں حصہ لینے والے اطالوی قانون سازوں میں سے ایک آرٹورو سکوٹو نے روم میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’جو لوگ قانونی طور پر کام کر رہے تھے، وہ ان کشتیوں پر سوار لوگ تھے اور جو لوگ غیر قانونی طور پر کام کر رہے تھے، وہ وہ تھے جنہوں نے انہیں غزہ پہنچنے سے روکا۔ ‘
ایک دوسرے اطالوی پارلیمنٹیرین بینڈیٹا سکوڈری نے بتایا: ’ہمیں بے دردی سے روکا گیا۔۔۔ بے دردی سے یرغمال بنایا گیا۔‘
اسرائیل نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
<p>اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے یکم اکتوبر 2025 کو جاری کردہ اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ (درمیان) اور برازیلی کارکن تھیاگو ایویلا (بائیں) کو دیگر کارکنوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/9QfkEdF