فارسی ادبیات کے استاد، شاعر و نقاد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ( 1899 تا 1978) نے اپنی زندگی کے پانچ دہے لاہور میں گزارے۔ وہ 1927 میں لاہور آئے اور 51 برس گزارنے کے بعد 1978 میں اسی شہر میں پیوندِ خاک ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کا قیام 23 سالوں (1931 تا 1954) پر محیط ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور کی ملازمت کے دوران، صوفی صاحب لاہور کے مختلف علاقوں میں مقیم رہے۔ ان میں اندرون بھاٹی گیٹ، داتا دربار ذیلدار روڈ، نور محلہ اور بھاٹیاں کا میدان محلہ جلوٹیاں شامل ہے۔ 1964 میں سمن آباد والے گھر میں مستقل سکونت اختیار کرنے سے پہلے مرحوم نے 17 سال دیو سماج روڈ پر واقع ایک تاریخی گھر میں گزارے۔ یہ گھر گورنمنٹ کالج لاہور سے چند منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ گھر کی ظاہری شکستگی نے اس کی وقیع تاریخ کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیا۔
کچھ روز ادھر مرحوم کے سن رسیدہ لیکن جواں ہمت بھتیجے (صوفی ذوالفقار صاحب : پیدائش 1949) کے ہمراہ مجھے یہ تاریخی مکان دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف، صوفی تبسم مرحوم کے ساتھ 29 سال رہے۔ صبح و شام کی صحبتیں، ماہ و سال کا ساتھ۔ صوفی صاحب کی شخصیت کے نادر پہلو کھلتے چلے گئے۔ یہ تحریر خاص طور پر دیو سماج روڈ والے گھر سے متعلق ہے تاکہ اس تاریخی مکان کی تفصیلات و جزئیات کو نسیاً منیساً ہونے سے بچایا جا سکے:
میں گھر جہاں میں اپنے لڑکوں کے سے بنائے
جب چاہا تب مٹایا بنیاد کیا جہاں کی (میر)
جیسا کہ عرض کیا جا چکا، ایک کنال پر محیط یہ مکان دیو سماج روڈ، سَنْت نگر میں واقع ہے۔ مکان دراصل گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر پران ناتھ (یا پریم ناتھ مدان) نے بنوایا تھا۔ تعمیر کے سال کا تعین مشکل ہے۔ لیکن خاندانی روایات کے مطابق یہ 1940 کے آس پاس کا واقعہ ہے۔ جولائی 1947 میں پروفیسر موصوف (پریم ناتھ) کو اپنا بھرا پرا اور جما جمایا گھر چھوڑ کر ہندوستان جانا پڑا۔ روانگی سے قبل، انہوں نے اسے صوفی تبسم صاحب کے ہاتھ بیچ دیا۔ یوں یہ گھر مع ساز و سامان صوفی صاحب کے ہاتھ آ گیا۔
’یہ مکان اپنے کشادہ صحن اور ہوا دار راہ داریوں کے باعث بہت دل کش معلوم ہوتا تھا۔ ان دنوں اس کے در و دیوار آئینے کی طرح روشن تھے۔‘ صوفی ذوالفقار
نومبر دسمبر 1947 میں حالات بہتر ہوئے تو پران صاحب سامان کی امید میں لاہور واپس آئے۔ جس قدر ممکن ہوا، سامان باندھا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ سامان کو سرحد پار لے جانے کی اجازت نہ ملی۔ یوں قیمتی نوادرات اور کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ ہوا کا رزق ہو گیا۔ صوفی تبسم اس واقعے کا ذکر ہمیشہ دکھ سے کیا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قیام پاکستان کے بعد صوفی تبسم گورنمنٹ کالج لاہور کے کوآڈرینگل ہاسٹل اور نیو ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ رہے۔ صوفی صاحب اپنے فرائض منصبی کے لیے اکثر ہاسٹل میں رہتے لیکن ان کا خانوادہ اسی مکان میں مقیم تھا۔ علمی و ادبی سرگرمیوں کا مقصد بھی اسی مکان کو بنایا گیا تھا۔ گورنمنٹ کالج اور مکان میں زمینی فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک تانگہ گھر کے باہر موجود رہتا۔ جب چاہتے ہاسٹل تشریف لے جاتے۔ ورنہ گھر ہی میں مصروف علم و عمل رہتے۔
صوفی تبسم کی اہلیہ کا انتقال بھی اسی گھر میں ہوا۔ یہ سانحہ 1950 میں پیش آیا۔ ان دنوں پطرس بخاری امریکہ میں مقیم تھے۔ وہ صوفی صاحب کے نام خط میں لکھتے ہیں :
’جو صدمہ آپ کو پہنچا اس کے متعلق میں کیا ایسی بات کہہ سکتا ہوں جو پامال اور بے معنی نہ ہو گئی ہو۔ لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ایک مرتبہ آپ کے گھر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا ہے۔ آپ کی بے فکری، آپ کی ضیافتیں اور مجلسیں ان کے طفیل تھیں۔ نہ معلوم اب آپ پر کیا گزرے گی۔‘
صوفی صاحب کے ملاقاتیوں میں ملک بھر کے شعرا و ادبا شامل تھے۔ یہ لوگ رات گئے تک محفل جمائے رہتے۔ سادہ و مخلص بیوی چولہے کے پاس بیٹھی مہمانوں کی مدارت میں مصروف رہتی۔ صوفی صاحب کے گھر کے کھانوں کی دوستوں میں بے حد مقبولیت تھی۔ عابد علی عابد نے خاص طور پر خوش رائحہ پکوانوں کی تعریف کی ہے۔
بیوی کے انتقال کے بعد صوفی صاحب 28 سال حیات رہے لیکن کبھی تاہّل کا نہ سوچا۔ ان کا شعری مجموعہ ’انجمن‘ بھی بیوی کے نام معَنون ہے۔ زوجہ کے بعد گھر کا انتظام صوفی صاحب کی چھوٹی بہن کے ہاتھ میں آ گیا۔ انہوں نے بھی بھائی کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور حسبِ سابق زندگی میں سہولت پیدا کیے رکھی۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے سبک دوشی (1954) کے بعد صوفی صاحب مستقل طور پر دیو سماج روڈ والے مکان میں اٹھ آئے۔ اس گھر کی مکانیت صوفی صاحب کو مرغوب تھی۔ مہمان زیادہ تر صوفی صاحب کے بالا خانے والے کمرے کی زینت بنتے۔ شائقین زیادہ ہونے پر نیچے کی بیٹھک کو بھی زعفران زار بنا لیا جاتا۔
دیو سماج پر واقع اس گھر کے دو دروازے ہیں۔ شمالی دروازہ مرکزی ہے۔ ابتدا میں یہ دروازہ لکڑی کا تھا جسے 1990 کی دہائی میں بہ وجوہ تبدیل کر دیا گیا۔ مشرقی دروازہ تا حال اصل حالت میں موجود ہے۔ اس دروازے کے ماتھے پر انگریزی میں Our Niwas کھدا ہے۔ نواس سنسکرت میں گھر کو کہتے ہیں۔
مشرقی دروازے کے باہر ایک لیٹر باکس موجود ہے۔ اینٹ اور گارے سے بنا یہ لیٹر باکس اپنی خوش نمائی کے باعث مسافروں کو متوجہ کرتا ہے۔ کسی دور میں یہ لیٹر بکس فعال تھا۔
حویلی کی شمالی جانب چار دکانیں ہیں۔ شمالی دروازے کے عین اوپر بالا خانے (Attic) کا مربع شکل کمرا ہے جو صوفی تبسم کے جینے مرنے کا محل تھا۔ کمرے کی دونوں طرف (شمالاً جنوباً) کشادہ کھڑکیاں ہیں۔ یہ کمرا اپنے دور کے بہترین ادیبوں اور خوش مذاق فن کاروں کی اجتماع گاہ تھا۔ صوفی ذوالفقار کا کہنا ہے، ’بالا خانے کا یہ کمرا پطرس بخاری اور زید اے بخاری کا دوسرا گھر تھا۔ پطرس جب تشریف لاتے، کمرے کی طرف اوپر منہ کرتے اور فارسی اور انگریزی میں اپنی آمد کا اعلان کرتے۔‘
’اسی کمرے میں ن م راشد، چراغ حسن حسرت، فیض احمد فیض، فریدہ خانم، کشور ناہید اور دیگر ادبا تشریف لاتے۔ جوش اور فراق بھی یہیں رونق افروز ہوئے۔‘
گیت نویسی اور نغمہ نگاری کے باعث صوفی صاحب ریڈیو اور ٹی وی کی دنیا کا بھی معزز نام تھے۔ استاد دامن اور علاؤ الدین روز کے ملاقاتیوں میں تھے۔ فریدہ خانم بھی تشریف لاتیں اور صوفی صاحب کی تربیت سے بہرہ مند ہوتیں۔
صوفی ذوالفقار صاحب نے راقم سے چند آنکھوں دیکھے واقعات بیان کیے ہیں۔
ملاحظہ ہوں: ’مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ فیض صاحب اپنے کلام کی اصلاح کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ فریدہ خانم (پیدائش: 1929) نے کئی بار بتایا ہے۔ ایک بار فیض صاحب ان کی موجودگی میں بالا خانے میں آئے۔ صوفی صاحب نے انہیں کاغذوں کا پلندہ واپس کیا جو اصلاح و ترامیم کے سرخ نشانات سے بھرا تھا۔
’ہمارے گھر کے ساتھ والے گھر (مغربی سمت) میں کشور ناہید مقیم تھیں۔ کشور اکثر و بیشتر آتیں۔ صوفی صاحب ان کے کلام کی اصلاح کرتے۔ (کبھی کبھی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے) اس بات کا اعتراف کشور ناہید نے متعدد مقامات پر کیا ہے۔‘
’بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کا آغاز گھر سے ہوا۔ بیگم فوت ہو گئیں۔ بچے روز تنگ کرتے، کہانی سنائی جائے۔ صوفی صاحب کہتے: ’بھائی مجھے کہانی نہیں آتی، شعر سنا سکتا ہوں:‘
ثریا کی گڑیا نہانے لگی
نہانے لگی ڈوب جانے لگی
بڑی مشکلوں سے بچایا اسے
کنارے پہ میں کھینچ لایا اسے
عذرا کی گڑیا سوئی ہوئی ہے
گھنٹہ بجاؤ اس کو جگاؤ
توبہ ہے میری میں نہ جگاؤں
وہ تو پڑے گی مجھ سے لڑے گی
ثریا اور عذرا صوفی صاحب کی بیٹیوں کے نام ہیں۔ عذرا چھوٹی بیٹی ہیں جو حیات ہیں۔
بچوں کی اکثر نظمیں اسی بالا خانے میں لکھی گئیں۔ ان میں سے ایک میرے سامنے کہی:
سنو گپ شپ سنو گپ شپ
ناؤ میں ندی ڈوب چلی
آدھی رات کو چاند اور سورج
بادل کے گھر آئے
بجلی نے دروازہ کھولا
دونوں کی گھبرائے
ہاتھی نے چیونٹی کو پیٹا
گھوڑا گھاس نہ کھائے
دونوں اپنی دھن کے پکے
کون کسے سمجھائے
سنو گپ شپ سنو گپ شپ
یہ نظم پطرس کو بہت پسند تھی۔ پطرس، صوفی صاحب سے بچوں کی نظمیں لکھنے کی خصوصی فرمائش کرتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آزادی کے فوراً بعد صوفی صاحب پروفیسر حمید احمد خاں کے لاوارث بچوں کو پڑھایا کرتے۔ یہ کارِ خیر گول باغ (موجودہ ناصر باغ) میں انجام پاتا۔ اس زمانے میں انارکلی تھانے کی مغربی جانب (موجودہ سنٹرل آفس پولیس) ’محکمہ پھر سے بساؤ‘ کا بورڈ آویزاں تھا۔ یہ محکمہ روز شام کو ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی فہرستیں مرتب کرتا تھا۔ لوگ جاتے اور آدھی آدھی رات تک اپنے پیاروں کے ناموں کے منتظر رہتے۔ صوفی صاحب کے رشتے کی بہن اور بہنوئی امرتسر سے آتے ہوئے لاپتہ ہو گئے تھے۔ آج تک ان کا کوئی نشان نہ مل سکا۔ صوفی صاحب کو یہ غم پوری زندگی نہ بھولا۔ جب ذکر ہوتا، آبدیدہ ہو جاتے اور تا دیر کھوئے کھوئے رہتے۔‘
’ میڈم نور جہاں سے ان کے تعلقات مثالی تھے۔ میڈم انہیں دھن بتاتیں، صوفی صاحب آن کی آن میں نغمہ لکھ دیتے۔ 65 کی جنگ میں میڈم خود چل کر صوفی صاحب کے پاس آئیں اور نغمے لکھوائے۔ صوفی صاحب بھی میڈم کا بے حد احترام کرتے۔
’صوفی صاحب کو بچوں سے بے پناہ محبت تھی۔ کسی بچے کو میلا کچیلا دیکھتے تو اسے اٹھاتے، گھر لاتے اور نہانے دھلانے کا بندوبست کرتے۔ نئے کپڑے پہناتے اور خوشبو لگاتے۔ اس نوع کے درجنوں واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔
’صوفی صاحب کے پڑھانے کا انداز انوکھا اور دل کش تھا۔ قلم ہاتھ میں لیتے اور لفظوں کو خوب صورت خط میں لکھنا شروع کرتے۔ ایک ایک معنی بتاتے اور سہل جملے بناتے جاتے۔ ہر حرف کی خوش نویسی کا قاعدہ سجھاتے۔ اردو اور فارسی کے لاتعداد شعر سناتے۔انہیں پنجابی کے سیکڑوں شعر از بر تھے۔ ہندی اور سنسکرت پر بھی اچھی گرفت تھی۔‘
صوفی صاحب کے اس گھر کا تحریری ذکر بہت کم ملتا ہے۔ مکان کی موجودہ خستگی، تعمیر نو کی متقاضی ہے۔ مکان کی دیوار پر اور گلی کے کنارے کم سے کم ایک تختی نصب یونی چاہیے تاکہ اس تاریخی یادگار کو حافظے اور تاریخ کی لوح سے محو ہونے سے بچایا جا سکے۔
<p class="rteright">صوفی تبسم کا تاریخی مکان جو اردو ادب کے ایک اہم دور کا گواہ ہے (ارسلان راٹھور)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/8GdfYea