پاکستان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اس کی سکیورٹی فورسز نے چمن کے قریب سرحد پر افغستان کی جانب سے کی گئی فائرنگ کا ’فوری، نپا تلا اور ذمہ دارانہ‘ جواب دیا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر بیان میں کہا تھا ’ایک ایسے وقت پر جب پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور استنبول میں شروع ہوا ہے، بدقسمتی سے پاکستانی فورسز نے آج دوپہر سپن بولدک پر دوبارہ فائرنگ کی، جس سے مقامی آبادی میں تشویش پھیل گئی۔‘
انہوں نے کہا ’اسلامی امارت کی فورسز نے مذاکراتی ٹیم کے احترام اور شہری اموات سے بچنے کے لیے اب تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔‘
طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے اے ایف پی کو بتایا ’ہمیں معلوم نہیں کہ پاکستانی فائرنگ کی وجہ کیا تھی، تاہم ترکی میں مذاکرات جاری ہیں۔‘
صوبہ قندھار کے سرحدی علاقے میں اطلاعات کے سربراہ علی محمد حقمل نے کہا فائرنگ مختصر تھی، جب کہ مقامی رہائشیوں کے مطابق یہ 10 سے 15 منٹ تک جاری رہی۔
ایک افغان فوجی ذریعے نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ’پاکستان نے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا۔‘
تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغان طالبان کے حکام کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا فائرنگ افغان جانب سے شروع کی گئی، جس کا پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوری، نپی تلی اور ذمہ دارانہ کارروائی کے ساتھ جواب دیا۔
بیان کے مطابق پاکستانی فورسز کی ذمہ دارانہ کارروائی سے صورتحال پر قابو پا لیا گیا اور جنگ بندی برقرار ہے۔ ’پاکستان مذاکراتی عمل کے لیے پُرعزم ہے اور افغان حکام سے بھی اسی جذبے کی توقع رکھتا ہے۔‘
دونوں ملکوں میں آج بات چیت کا ایک اور دور استنبول میں جاری ہے تاکہ 19 اکتوبر کو قطر میں طے پانے والی جنگ بندی کو حتمی شکل دی جا سکے، جس نے دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان ایک ہفتے تک جاری رہنے والی خونریز جھڑپوں کو ختم کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کی بنیادی وجہ سکیورٹی امور ہیں۔ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ کابل ایسے عسکریت پسند گروہوں، خصوصاً پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دے رہا ہے جو دراندازی کر کے پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ تاہم طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
گذشتہ ہفتے استنبول میں ہونے والے مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب دونوں فریق جنگ بندی کی تفصیلات پر متفق نہ ہو سکے اور ایک دوسرے پر تعاون نہ کرنے کے الزامات عائد کیے۔
دونوں جانب سے یہ بھی انتباہ دیا گیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جھڑپیں دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں۔
میزبان ملک ترکی نے گذشتہ ہفتے کے مذاکرات کے اختتام پر کہا تھا کہ فریقین نے امن برقرار رکھنے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ایک ’مانیٹرنگ اینڈ ویریفیکیشن میکنزم‘ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اکتوبر میں ہوئی جھڑپوں کے دوران سرحد کی افغان جانب 50 شہری جان سے گئے اور 447 زخمی ہوئے، جب کہ کابل میں ہونے والے دھماکوں میں کم از کم پانچ افراد مارے گئے۔
پاکستانی فوج نے بتایا کہ اس کے 23 اہلکار جان سے گئے اور 29 زخمی ہوئے، تاہم شہری اموات کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔ دوسری جانب اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغان حکومت انڈیا کی حمایت سے ایسے اقدامات کر رہی ہے۔
قطر اور ترکی اس مکالمے میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ ایسے خطے میں تصادم سے بچا جا سکے جہاں القاعدہ، داعش اور دیگر عسکریت پسند گروہ دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
<p>افغان طالبان کے جنگجو 15 اکتوبر 2025 کو سپین بولدک میں افغانستان-پاکستان سرحد کے قریب گشت کررہے ہیں (فائل فوٹو/ روئٹرز)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/lT1ZDVQ